كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 14. بَابُ: الْجَهْرِ بِآمِينَ باب: آمین زور سے کہنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لیے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 111 (780)، 113 (782)، التفسیر 2 (4475)، الدعوات 63 (6402)، سنن النسائی/الافتتاح 33 (927، 928)، (تحفة الأشراف: 13136)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة 18 (410)، سنن ابی داود/الصلاة 172 (936)، سنن الترمذی/الصلاة 71 (250)، موطا امام مالک/الصلاة 11 (قبیل45)، مسند احمد (2/238، 469)، سنن الدارمی/الصلاة 38 (1282) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے امام نسائی نے امام کے بلند آواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہو سکے گا تو ان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام (آمین) کہے تو تم بھی آمین کہو ۱؎، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الافتتاح 33 (929)، (تحفة الأشراف: 13287)، وحدیث سلمة بن عبد الرحمن تفرد بہ ابن ماجہ 15302، (تحفة الأشراف: 15302) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی پہلے امام بلند آواز سے آمین کہے، پھر مقتدی بھی آواز سے آمین کہیں، اور اس کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ آمین آہستہ سے کہنا چاہئے، اور دلیل دیتے ہیں وائل کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پر پہنچے تو آہستہ سے آمین کہی، (مسند امام احمد، مسند ابویعلی، طبرانی، دارقطنی، مستدرک الحاکم) ہم کہتے ہیں کہ خود اس حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے، ورنہ وائل نے کیوں کر سنا اور سفیان نے اس حدیث کو وائل سے روایت کیا، اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین کہی بلند آواز سے، اور صاحب ہدایہ نے آمین کو دھیرے سے کہنے پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا ہے، اور وہ روایت ضعیف ہے، نیز صحابی کا قول مرفوع حدیثوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد اخفاء سے یہ ہو کہ زور سے کہنے میں مبالغہ نہ کرے، «واللہ اعلم» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ پہلی صف کے لوگ سن لیتے، اور آمین سے مسجد گونج اٹھتی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15444، ومصباح الزجاجة: 311)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 172 (934) (ضعیف)» (اس کی سند میں ابو عبداللہ مجہول ہیں، اور بشر بن رافع ضعیف ہیں، اس لئے ابن ماجہ کی یہ روایت جس میں «فيرتج بها المسجد» (جس سے مسجد گونج جائے) کا لفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 465)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم «ولا الضالين» کہتے تو «آمین» کہتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10065، ومصباح الزجاجة: 312) (صحیح)» (اس حدیث کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد میں آنے والی صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 845، فواد عبد الباقی اور خلیل مامون شیحا کے نسخوں میں اور مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں عثمان بن ابی شیبہ ہے، مشہور حسن نے ابوبکر بن ابی شیبہ ثبت کیا ہے، اور ایسے تحفة الأشراف میں ہے، اس لئے ہم نے ابو بکر کو ثبت کیا ہے، جو ابن ماجہ کے مشاہیر مشائخ میں ہیں، اس لئے کہ امام مزی نے تحفہ میں یہی لکھا ہے، اور تہذیب الکمال میں حمید بن عبدالرحمن کے ترجمہ میں تلامیذ میں ابوبکر بن ابی شیبہ کے نام کے آگے (م د ق) کا رمز ثبت فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح مسلم، ابوداود، اور ابن ماجہ میں ابو بکر کے شیخ حمید بن عبد الرحمن ہی ہیں، ملاحظہ ہو، تہذیب الکمال: (7/ 377)، اور عثمان بن ابی شیبہ کے سامنے (خ م) یعنی بخاری و مسلم کا رمز دیا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں میں حمید سے روایت کرنے والے عثمان ہیں، ایسے ہی عثمان کے ترجمہ میں حمید بن عبد الرحمن کے آگے (خ م) کا رمز دیا ہے)
وضاحت: ۱؎: آمین کے معنی ہیں قبول فرما، اور بعضوں نے کہا کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے، اور جو کوئی اس کو برا سمجھے اس کو اپنی حدیث مخالف روش پر فکر مند ہونا چاہئے کہ وہ حدیث رسول کے اعراض سے کیوں کر اللہ کے یہاں سرخرو ہو سکے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے «ولا الضالين» کہا، تو اس کے بعد آمین کہا، یہاں تک کہ ہم نے اسے سنا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11766)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 172 (932)، سنن الترمذی/الصلاة 70 (248)، سنن النسائی/الافتتاح 4 (880)، مسند احمد (4/315، 317، سنن الدارمی/الصلاة 39 (1283) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16074، ومصباح الزجاجة: 313)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/125) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا «آمین» کہنے پر کیا، لہٰذا تم آمین کثرت سے کہا کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5897، ومصباح الزجاجة: 314) (ضعیف جدا)» (سند میں طلحہ بن عمرو متروک ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث بغیر آخری ٹکڑے «فأكثروا من قول آمين» کے ثابت ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
|