ابومسعود رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک سورج و چاند کسی کے موت کی وجہ سے نہیں گہناتے ۱؎، لہٰذا جب تم اسے گہن میں دیکھو تو اٹھو، اور نماز پڑھو“۔
وضاحت: ۱؎: بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، یعنی اس کی قدرت کی نشانی ہے، اور سچی حکمت تھی جو آپ ﷺ نے لوگوں کو بتائی، اور ان کے غلط خیال کی تردید کہ گرہن کسی بڑے کی موت کی وجہ سے لگتا ہے، اگر ایسا ہو تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ اوقات پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا اس وقت گرہن لگتا حالانکہ اب علمائے ہئیت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے معلوم کر لیے ہیں کہ ایک منٹ بھی ان سے آگے پیچھے نہیں ہوتا، اور سال بھر سے پہلے یہ لکھ دیتے ہیں کہ ایک سال میں سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میں ہو گا، اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میں، اور یہ بھی بتلا دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کا قرص گرہن سے کل چھپ جائے گا یا اس قدر حصہ، اور یہ بھی دکھلا دیتے ہیں کہ کس میں کتنا گرہن ہو گا، ان کے نزدیک زمین اور چاند کے گرہن کی علت حرکت ہے اور زمین کا سورج اور چاند کے درمیان حائل ہونا ہے۔ «واللہ اعلم» ۔
It was narrated that Abu Mas’ud said:
The Messenger of Allah (ﷺ) said: “The sun and the moon do not become eclipsed for the death of anyone among mankind. If you see that, then stand and perform prayer.”
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ، واحمد بن ثابت ، وجميل بن الحسن ، قالوا: حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي قلابة ، عن النعمان بن بشير ، قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فخرج، فزعا يجر ثوبه حتى اتى المسجد، فلم يزل يصلي حتى انجلت"، ثم قال:" إن اناسا يزعمون ان الشمس والقمر لا ينكسفان إلا لموت عظيم من العظماء، وليس كذلك، إن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا تجلى الله لشيء من خلقه خشع له". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَخَرَجَ، فَزِعًا يَجُرُّ ثَوْبَهُ حَتَّى أَتَى الْمُسْجِدَ، فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي حَتَّى انْجَلَتْ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ أُنَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنَ الْعُظَمَاءِ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ، إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا تَجَلَّى اللَّهُ لِشَيْءٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج میں گہن لگا تو آپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں آئے اور سورج روشن ہونے تک برابر نماز پڑھتے رہے، پھر فرمایا: ”کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سورج اور چاند کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت و پیدائش کی وجہ سے نہیں گہناتے، بلکہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پر اپنی تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے جھک جاتی ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 268 (1193)، سنن النسائی/الکسوف 16 (1486)، (تحفة الأشراف: 11631)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/267، 269، 271، 277) (منکر) (''اس میں فَإِذَا تَجَلَّى اللَّهُ لِشَيْئٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ'' کا ٹکڑا منکر ہے، سابقہ حدیث ملاحظہ ہو جو کافی ہے)»
وضاحت: ۱؎: اور دوسری حدیثوں میں دعا اور تکبیر اور صدقہ اور استغفار بھی وارد ہے، جب تک گرہن ختم نہ ہو جائے۔
It was narrated that Nu’man bin Bashir said:
“The sun was eclipsed at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), and he came out alarmed, dragging his lower garment, until he reached the mosque. He continued to perform prayer until the eclipse was over, then he said: ‘Some people claim that the sun and moon only become eclipsed because of the death of a great leader. That is not so. The sun and the moon do not become eclipsed for the death or birth of anyone. When Allah manifests Himself to anything in His creation, it humbles itself before Him.’”
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، اخبرني عروة بن الزبير ، عن عائشة ، قالت: كسفت الشمس في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، فقام فكبر فصف الناس وراءه، فقرا رسول الله صلى الله عليه وسلم قراءة طويلة، ثم كبر، فركع ركوعا طويلا، ثم رفع راسه، فقال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ثم قام فقرا قراءة طويلة هي ادنى من القراءة الاولى، ثم كبر فركع ركوعا طويلا هو ادنى من الركوع الاول، ثم قال: سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ثم فعل في الركعة الاخرى مثل ذلك، فاستكمل اربع ركعات واربع سجدات، وانجلت الشمس قبل ان ينصرف، ثم قام فخطب الناس، فاثنى على الله بما هو اهله"، ثم قال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتموهما، فافزعوا إلى الصلاة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ ِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَقَامَ فَكَبَّرَ فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا هُوَ أَدْنَى مِنَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَانْجَلتَ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد گئے، اور کھڑے ہو کر «الله أكبر» کہا، لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے صف لگائی، آپ نے لمبی قراءت کی، پھر «الله أكبر» کہا، اور دیر تک رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قراءت کی جو پہلی قراءت سے کم تھی، پھر «الله أكبر» کہا، اور لمبا رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا، پھر «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد» کہا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا، اور چار رکوع اور چار سجدے مکمل کئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے سے پہلے سورج روشن ہو چکا تھا، پھر آپ کھڑے ہوئے، خطبہ دیا، اور اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جس کا وہ مستحق ہے، پھر فرمایا: ”بیشک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، وہ کسی کی موت و پیدائش کی وجہ سے نہیں گہناتے، لہٰذا جب تم ان کو گہن میں دیکھو تو نماز کی طرف دوڑ پڑو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الکسوف 4 (1046)، 5 (1047)، 13 (1058)، العمل في الصلاة 11 (1212)، بدأالخلق 4 (3203)، صحیح مسلم/الکسوف 1 (901)، سنن ابی داود/الصلاة 262 (1180)، سنن النسائی/الکسوف 11 (1476)، (تحفة الأشراف: 16692)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الکسوف 1 (1)، مسند احمد (6/76، 87، 164، 168)، سنن الدارمی/الصلاة 187 (1570) (صحیح)»
It was narrated that ‘Aishah said:
“The sun was eclipsed during the life of the Messenger of Allah (ﷺ). The Messenger of Allah (ﷺ) went out to the mosque and stood and said the Takbir, and the people formed rows behind him. The Messenger of Allah (ﷺ) recited for a long time, then he said the Takbir and bowed for a long time. Then he raised his head and said: ‘Sami’ Allahu liman hamidah, Rabban was lakal-hamd.’ Then he stood and recited for a long time, but shorter than the first recitation. Then he said the Takbir and bowed for a long time, but less than the first bowing. Then he said: ‘Sami’ Allahu liman hamidah, Rabbana wa lakal-hamd.’ Then he did the same in the next Rak’ah, and he completed four Rak’ah and four sets of prostration, and the eclipse ended before he finished. Then he stood and addressed the people. He praised Allah as He deserves to be praised, then he said: ‘The sun and the moon are two of the signs of Allah. They do not become eclipsed for the death or birth of anyone. If you see that then seek help in prayer.’”
(مرفوع) حدثنا محرز بن سلمة العدني ، قال: حدثنا نافع بن عمر الجمحي ، عن ابن ابي مليكة ، عن اسماء بنت ابي بكر ، قالت:" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الكسوف، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم رفع، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم رفع، ثم سجد فاطال السجود، ثم انصرف"، فقال:" لقد دنت مني الجنة حتى لو اجترات عليها لجئتكم بقطاف من قطافها، ودنت مني النار حتى قلت اي رب وانا فيهم"، قال نافع: حسبت انه قال: ورايت امراة تخدشها هرة لها، فقلت: ما شان هذه؟، قالوا: حبستها حتى ماتت جوعا لا هي اطعمتها، ولا هي ارسلتها تاكل من خشاش الارض". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ:" صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْكُسُوفِ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ"، فَقَالَ:" لَقَدْ دَنَتْ مِنِّي الْجَنَّةُ حَتَّى لَوِ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا، وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ أَيْ رَبِّ وَأَنَا فِيهِمْ"، قَالَ نَافِعٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: وَرَأَيْتُ امْرَأَةً تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ لَهَا، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ هَذِهِ؟، قَالُوا: حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا، وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خِشَاشِ الْأَرْضِ".
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گہن کی نماز پڑھائی، اور کافی لمبا قیام کیا، پھر کافی لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا تو کافی لمبا قیام کیا، پھر کافی لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا تو کافی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا، اور کافی لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور لمبا سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”جنت مجھ سے اتنی قریب ہو گئی کہ اگر میں جرات کرتا تو تمہارے پاس اس کے خوشوں (گچھوں) میں سے کوئی خوشہ (گچھا) لے کر آتا، اور جہنم بھی مجھ سے اتنی قریب ہو گئی کہ میں نے کہا: اے رب! (کیا لوگوں پر عذاب آ جائے گا) جبکہ میں ان کے درمیان موجود ہوں؟“۔ نافع کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کو اس کی بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا: اس کا سبب کیا ہے؟ فرشتوں نے بتایا کہ اس عورت نے اسے باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی، نہ اس نے اسے کھلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 90 (749)، سنن النسائی/الکسوف 21 (1499)، (تحفة الأشراف: 15717)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الکسوف 2 (4)، مسند احمد (6/315) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «خشاش» کا لفظ ہے خائے معجمہ سے یعنی زمین کے کیڑے مکوڑے اور بعضوں نے «حشاش» کہا ہے حائے حطی سے، اور یہ سہو ہے کیونکہ «حشاش» سوکھی گھاس کو کہتے ہیں، اسی سے «حشیش» ہے، اور وہ بلی کی غذا نہیں ہے، اس حدیث سے بھی ہر رکعت میں دو رکوع ثابت ہوتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جاندار کو قید میں رکھنا اور اس کو خوراک نہ دینا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جائے بہت بڑا گناہ ہے، جس کی وجہ سے آدمی جہنم میں جائے گا۔
It was narrated that Asma’ bint Abu Bakr said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) performed the eclipse prayer. He stood for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up, then he prostrated for a long time, then he sat up, then he prostrated for a long time. He stood for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up for a long time, then he bowed for a long time, then he stood up, then he prostrated for a long time, then he sat up, then he prostrated for a long time. Then he finished and said: ‘Paradise was brought close to me, so that if I had dared, I could have brought you some of its fruits. And Hell was brought near to me, until I said: “O Lord, am I one of them?” Nafi’ said: “I think that he said: ‘And I saw a woman being scratched by a cat that belonged to her. I said: “What is wrong with this woman?” They said: “She detained it until it died of hunger; she did not feed it and she did not let it loose to eat of the vermin of the earth.”