كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 61. بَابُ: الْمُصَلِّي يَتَنَخَّمُ باب: نمازی کے تھوکنے کا بیان۔
طارق بن عبداللہ محاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز پڑھو تو اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکو، بلکہ اپنے بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوک لو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 22 (478)، سنن الترمذی/الصلاة 284 (571)، سنن النسائی/المساجد 33 (727)، (تحفة الأشراف: 4987)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/396) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی سمت بلغم دیکھا، تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آگے بلغم تھوکتے ہیں؟ کیا تم میں کا کوئی یہ پسند کرے گا کہ دوسرا شخص اس کی طرف منہ کر کے اس کے منہ پر تھوکے؟ جب کوئی شخص نماز کی حالت میں تھوکے تو اپنے بائیں جانب تھوکے، یا اپنے کپڑے میں اس طرح تھوک لے“۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ پھر اسماعیل بن علیہ نے مجھے اپنے کپڑے میں تھوک کر پھر مل کر دکھایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ المساجد 13 (550)، سنن النسائی/الطہارة 193 (310)، (تحفة الأشراف: 14669)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 35 (408، 409)، سنن ابی داود/الصلاة 22 (477)، مسند احمد (2/250، 251، 260)، سنن الدارمی/الصلاة 116 (1438) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے شبث بن ربعی کو اپنے آگے تھوکتے ہوئے دیکھا تو کہا: شبث! اپنے آگے نہ تھوکو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرماتے تھے، اور کہتے تھے: ”آدمی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو جب تک وہ نماز پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، یہاں تک کہ نماز پڑھ کر لوٹ جائے، یا اسے برا حدث ہو جائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3349، ومصباح الزجاجة: 366) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: برے حدث سے مراد کوئی نیا امر اور نئی بات، جو خشوع کے خلاف ہو جیسے سامنے تھوکنا، یا اس سے مراد ہوا خارج ہونا ہے جس سے انسان کی پاکی ختم ہو جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حالت میں اپنے کپڑے میں تھوکا، پھر اسے مل دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 388، ومصباح الزجاجة: 367)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 33 (405)، 39 (417)، سنن ابی داود/الطہارة 143 (390)، سنن النسائی/الطہارة 193 (309)، سنن الدارمی/الصلاة 116 (1436) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|