كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 13. بَابُ: إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا باب: جہری نماز میں امام قرات کرے تو اس پر خاموش رہنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ «ألله أكبر» کہے تو تم بھی «ألله أكبر» کہو، اور جب قراءت کرے تو خاموشی سے اس کو سنو ۱؎، اور «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہے تو آمین کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب «سمع الله لمن حمده» کہے تو «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 69 (604)، سنن النسائی/الافتتاح 30 (922، 923)، (تحفة الأشراف: 12317)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 74 (722)، صحیح مسلم/الصلاة 19 (144)، مسند احمد (2/376، 420)، سنن الدارمی/الصلاة 71 (1350)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 960، 1239) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام جہری قراءت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ قعدہ میں ہو تو تم میں سے ہر ایک پہلے «التحيات» پڑھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 16 (404)، سنن ابی داود/الصلاة 182 (972، 604)، سنن النسائی/الإمامة 38 (831)، التطبیق 23 (1065)، السہو 44 (1281)، (تحفة الأشراف: 8987)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/401، 05 4، 409)، سنن الدارمی/الصلاة 71 (1351) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی زور سے قراءت نہ کرو، یہ مطلب نہیں کہ سورۃ فاتحہ نہ پڑھو، کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، کیونکہ دوسری حدیثوں سے جو خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں یہ ثابت ہے کہ مقتدی کو سورۃ فاتحہ ہر ایک نماز میں پڑھنا چاہئے، ابھی اوپر گزرا کہ ابوالسائب نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا: اے فارسی! اپنے دل میں پڑھ لو، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام کی قراءت کے وقت مقتدی زور سے قراءت نہ کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے امام کو تکلیف ہوتی ہے، کبھی وہ بھول جاتا ہے۔ ۲؎: اگر امام کسی عذر کے سبب بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، اگر وہ معذور نہیں ہیں، اس حدیث کا یہ حکم کہ امام بیٹھ کر پڑھائے تو بیٹھ کر پڑھو منسوخ ہے، مرض الوفات کی حدیث سے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کوئی نماز پڑھائی، (ہمارا خیال ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی) نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے قراءت کی ہے؟“، ایک آدمی نے کہا: جی ہاں، میں نے کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں سوچ رہا تھا کہ کیا بات ہے قرآن پڑھنے میں کوئی مجھ سے منازعت (کھینچا تانی) کر رہا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 137 (826، 827)، سنن الترمذی/الصلاة 117 (312)، سنن النسائی/الافتتاح 28 (920)، (تحفة الأشراف: 14264)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 10 (44)، مسند احمد (2/240، 284، 285، 302، 487) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، اس کے بعد پہلی جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے: پھر لوگوں نے جہری نماز میں خاموشی اختیار کر لی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 14264) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جہری نماز میں لوگوں نے آواز سے پڑھنا چھوڑ دیا، یا سورت کا پڑھنا ہی چھوڑ دیا، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا بھی چھوڑ دیا جیسا حنفیہ نے سمجھا ہے کیونکہ اس کے بغیر تو نماز ہی نہیں ہوتی، واضح رہے کہ حدیث کا آخری ٹکڑا «فسكتوا» مدرج ہے، زہری کا کلام ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے لیے امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2675، ومصباح الزجاجة: 310)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/339) (ضعیف)» (سند میں جابر الجعفی ضعیف بلکہ متہم بالکذب راوی ہے، اس لئے علماء کی اکثریت نے اس حدیث کی تضعیف فرمائی ہے، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پراس کی تحسین کی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 850، نیز ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة: و فتح الباری: 2/242 وسنن الترمذی بتحقیق احمد شاکر 2/121-126، و سنن الدار قطنی: 1/323- 333)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں: «له طرق أخرى كلها واهية» یعنی اس حدیث کے تمام کے تمام طرق واہی ہیں، علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: «طرق كلها معلولة» یعنی اس کے تمام طرق معلول ہیں، امام بخاری «جزء قراءت» میں فرماتے ہیں: «هذا خبر لم يثبت عند أهل العلم من أهل الحجاز وأهل العراق وغيرهم لإرساله و انقطاعه» یعنی یہ حدیث حجاز و عراق وغیرہ کے اہل علم کے نزدیک بسبب مرسل اور منقطع ہونے کے ثابت نہیں، اور اگر ثابت مان بھی لیا جائے، تو اس کا معنی یہ ہے کہ صرف سورۃ فاتحہ پڑھے کچھ اور پڑھنے کی ضرورت نہیں، فاتحہ کافی ہے تاکہ اس کا معنی دوسری احادیث کے مطابق ہو جائے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
|