كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 11. بَابُ: الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الإِمَامِ باب: امام کے پیچھے قرات کا حکم۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 95 (756)، صحیح مسلم/الصلاة 11 (394)، سنن ابی داود/الصلاة 136 (822)، سنن الترمذی/الصلاة 69 (247)، 115 (311)، سنن النسائی/الافتتاح 24 (911)، (تحفة الأشراف: 5110)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/314، 322)، سنن الدارمی/الصلاة 36 (1278) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے“، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورۃ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 11 (395)، سنن ابی داود/الصلاة 135 (821)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة (2953)، سنن النسائی/الافتتاح 23 (910)، (تحفة الأشراف: 14935)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 9 (39)، مسند احمد (2/241، 250، 285، 290، 457، 478، 487) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بہرحال ہر شخص کو ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے، امام ہو یا مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہی قوی ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں «القراءۃ خلف الإمام» نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہ کرے نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں اور دلیل ان کی یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا» ”جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو“ (سورة الأعراف: 204)، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے سورۃ فاتحہ کا نہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ مقتدی کو آہستہ سے سورۃ فاتحہ پڑھنا چاہئے جیسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اپنے دل میں پڑھ لے، اور یہ مثل خاموش رہنے کے ہے، خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز بلند نہ کرو، تاکہ امام کی قراءت میں حرج واقع نہ ہو، اور دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تو سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو آدمی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، ”تنویر العینین“ میں ہے کہ جو بھی صورت ہو اور جس طرح بھی ہو بہر حال سورۃ فاتحہ کا پڑھ لینا ہی بہتر ہے، اور یہی مقتدی کے لئے مناسب ہے، اور بیہقی نے یزید بن شریک سے روایت کی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قراءت خلف الامام کے بارے پوچھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”سورۃ فاتحہ پڑھا کرو“، یزید نے کہا: اگرچہ جہری نماز میں ہو؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگرچہ جہری نماز میں ہو“، احناف کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے جس میں آپ نے ﷺ فرمایا: «مالی انازع القرآن»، اور اس کا جواب یہ ہے کہ منازعت (چھینا جھپٹی) اسی وقت ہو گی جب مقتدی بآواز بلند قراءت کرے، اور آہستہ سے صرف سورۃ فاتحہ پڑھ لینے میں کسی منازعت کا اندیشہ نہیں، اور اسی حدیث میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو“، اور ممکن ہے کہ مقتدی امام کے سکتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھے، پس آیت اور حدیث دونوں کی تعمیل ہو گئی، اور کئی ایک حنفی علماء نے اس کو اعدل الاقوال کہا ہے، صحیح اور مختار مذہب یہ ہے کہ مقتدی ہر نماز میں جہری ہو یا سری سورۃ فاتحہ ضرور پڑھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی کیونکہ «لا» نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز ”مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے“، لہذا بعض یا کل کی نفی سے ذات کی نفی ہو جائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہو سکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جو فرض و نفل کی ہر رکعت میں «الحمد لله» اور کوئی دوسری سورت نہ پڑھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4359، ومصباح الزجاجة: 306) (ضعیف)» (ابو سفیان طریف بن شہاب السعدی ضعیف ہیں، اصل حدیث صحیح مسلم میں ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابو داود: 777)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16181، ومصباح الزجاجة: 307)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/142، 275) (حسن صحیح)» (اس سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح اور ثابت ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر وہ نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے، ناقص“۔
تخریج الحدیث: «تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8694، ومصباح الزجاجة: 309) (ط. الجامعة الإسلامیة)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/204، 215) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ ایک رکن چھوٹ گیا پس معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا اور کہا: جس وقت امام قراءت کر رہا ہو کیا میں امام کے پیچھے قراءت کروں؟ تو انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا ہر نماز میں قراءت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، یہ سن کر لوگوں میں سے ایک شخص بولا: اب تو قراءت واجب ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10944، ومصباح الزجاجة: 308)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الافتتاح 31 (924)، مسند احمد (1/448) (ضعیف الإسناد)» (اس حدیث کی سند میں معاویہ بن یحییٰ الصدفی ضعیف ہیں)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم ظہر و عصر میں امام کے پیچھے پہلی دونوں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورۃ پڑھتے تھے، اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3144، ومصباح الزجاجة: 309) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|