كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 172. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى باب: رات اور دن کی (نفلی) نماز دو دو رکعت ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 302 (1295)، سنن الترمذی/الصلاة 301 (597)، سنن النسائی/قیام اللیل 24 (1667)، (تحفة الأشراف: 7349)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/26، 51)، سنن الدارمی/الصلاة 155 (1500) (صحیح)» ( «والنہار» کی زیادتی کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے، ابن خزیمہ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور کہا کہ اس کے رواة ثقہ ہیں، اور مسلم نے علی البارقی سے حجت پکڑی ہے، اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، علامہ البانی نے سلسلة الاحادیث الصحیحة میں اس کی تصحیح کی ہے، لیکن بعض اہل علم نے «والنہار» کو ضعیف کہا ہے، کیونکہ یہ زیادتی علی البارقی الازدی کے طریق سے مروی ہے، اور یہ ابن معین کے نزدیک ضیعف ہیں، ملاحظہ ہو: التلخیص ا لحبیر: 544)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن نماز الضحیٰ (چاشت کی نفل) آٹھ رکعت پڑھی، اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 301 (1290)، (تحفة الأشراف: 1810)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل 21 (280)، الصلاة 4 (357)، الجزیة 9 (3171)، الأدب 94 (6158)، صحیح مسلم/الحیض 16 (336)، المسافرین 13 (336)، سنن الترمذی/الوتر 15 (474)، الاستئذان 34 (2734)، سنن النسائی/الطہارة 143 (226)، موطا امام مالک/صلاةالضحیٰ 8 (27)، سنن الدارمی/الصلاة 151 (1494) (صحیح) دون زیادة ''ثم سلم۔۔۔ الخ''کمارواہ الآخرون والمؤلف برقم: 1378۔»
وضاحت: ۱؎: نماز الضحیٰ کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں روایتوں میں اختلاف ہے، دو، چار، آٹھ اور بارہ رکعات تک کا ذکر ہے، اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ روایتوں کے اختلاف کو گنجائش پر محمول کیا جائے، اور جتنی جس کو توفیق ملے پڑھے اس فرق کے ساتھ کہ آٹھ رکعت تک کا ذکر فعلی حدیثوں میں ہے، اور بارہ کا ذکر قولی حدیث میں ہے، بعض نے اسے بدعت کہا ہے لیکن بدعت کہنا غلط ہے، متعدد احادیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے (مصنف ابن ابی شیبہ۲/۴۰۵)۔ اکثر علماء کے نزدیک چاشت اور اشراق کی نماز ایک ہی ہے، جو سورج کے ایک یا دو نیزے کے برابر اوپر چڑھ آنے پر پڑھی جاتی ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نماز الضحیٰ چاشت کی نماز اشراق کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: منكر بزيادة التسليم والمحفوظ دونها
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دو رکعت پر سلام ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4360، ومصباح الزجاجة: 466) (ضعیف)» (اس کی سند میں ابوسفیان طریف بن شھاب السعدی ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4023)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
مطلب بن ابی وداعہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی و مسکینی ظاہر کرنا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا، اور کہنا ہے کہ اے اللہ! مجھ کو بخش دے، جو کوئی ایسا نہ کرے (یعنی اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر نہ کرے تو) اس کی نماز ناقص ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 302 (1296)، (تحفة الأشراف: 11288)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/167) (ضعیف)» (اس کے روای عبد اللہ بن نافع بن العمیاء مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: مطلب بن أبی وداعہ وہم ہے، صحیح (المطلب بن ربیعہ ہے) ملاحظہ ہو: تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۸۸، تہذیب الکمال، ترجمہ المطلب بن ربیعہ ۲۸؍ ۷۶)۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|