كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 28. بَابُ: التَّسْلِيمِ باب: سلام پھیرنے کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دینے لگتی، اور آپ کہتے: «السلام عليكم ورحمة الله» ۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 189 (996)، سنن الترمذی/الصلاة 106 (295)، سنن النسائی/السہو70 (1323، 1324)، (تحفة الأشراف: 9504)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 22 (582)، مختصرا، مسند احمد (1/390، 406، 408، 409، 414، 444، 448، سنن الدارمی/ الصلاة 87 (1385) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد22 (582)، سنن النسائی/السہو 67 (1317، 1318)، (تحفة الأشراف: 3866)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/172، 181)، سنن الدارمی/الصلاة 87 (1385) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی، اور کہتے: «السلام عليكم ورحمة الله. السلام عليكم ورحمة الله» ۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10355، ومصباح الزجاجة: 334) (صحیح)» (یہ سابقہ حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، سند کی تحسین بوصیری نے کی ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں جنگ جمل کے دن ایسی نماز پڑھائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی یاد تازہ ہو گئی، جسے یا تو ہم بھول چکے تھے یا چھوڑ چکے تھے، تو انہوں نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8982، ومصباح الزجاجة: 335) (منکر)» (یہ حدیث ابوبکر بن عیاش اور ابو اسحاق کی وجہ سے منکر ہے، لیکن یہ ٹکڑا «فسلم على يمينه وعلى شماله» صحیح ہے، کیونکہ اس سے پہلے والی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، صحیح ابن خزیمہ)
وضاحت: ۱؎: جنگ جمل: جمادی الآخرہ ۳۶ ھ میں علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کے درمیان یہ جنگ بصرہ میں واقع ہوئی۔ ۲؎: اہل حدیث کے نزدیک نماز سے باہر آنے کے لئے سلام پھیرنا واجب ہے، اور دوسری حدیث میں ہے کہ نماز کی تحلیل (یعنی اس کے ختم کرنے اور اس سے باہر جانے کا راستہ) سلام ہے، اب صحیح اور مشہور یہی ہے کہ دائیں اور بائیں طرف دو سلام کرے، ابن القیم نے کہا کہ پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دو سلام نقل کئے ہیں، ان میں سے ابن مسعود، سعد، جابر، ابوموسی، عمار بن یاسر، عبداللہ بن عمر، براء، وائل، ابو مالک، عدی، طلق، اوس اور ابورمثہ رضی اللہ عنہم ہیں، ان میں سے بعض روایتیں صحیح ہیں، بعض حسن ہیں، ان کی مخالف پانچ حدیثیں ہیں، جن میں ایک سلام مذکور ہے، اور ان کی صحت میں اختلاف ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں «وبرکاتہ» کا لفظ زیادہ ہے جس کو ابوداود نے وائل بن حجر کی روایت سے نقل کیا ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول یہی ہے کہ ایک ہی سلام کرنا کافی ہے سلام کے سلسلے میں مختلف روایات ثابت ہیں، اس لئے سب صورتیں صحیح ہیں، اور ثابت شدہ تمام احادیث پر عمل کرنا مشروع و مسنون ہے، ہاں جس کیفیت پر رسول اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب زیادہ رہا کرتے تھے اس کو زیادہ کرنا اولیٰ ہے، نیز ان کیفیات کے لئے، (ملاحظہ ہو: صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للألبانی، ص۱۸۷، ۱۸۸)۔ قال الشيخ الألباني: منكر وأما السلام يمينا ويسارا فصحيح بما قبله
|