كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 33. بَابُ: الاِنْصِرَافِ مِنَ الصَّلاَةِ باب: نماز کے بعد امام کے دائیں یا بائیں طرف پھرنے کا بیان۔
ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تو اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف سے مڑتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 204 (1041)، سنن الترمذی/الصلاة 110 (301)، (تحفة الأشراف: 11733)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/226، 227) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر جدھر جی چاہے ادھر مقتدیوں کی طرف مڑ جائے، یہ ضروری نہیں کہ دائیں طرف ہی مڑے، اگرچہ دائیں طرف مڑنا بہتر ہے، لیکن واجب نہیں ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی کرے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی اپنی ذات میں شیطان کے لیے حصہ مقرر نہ کرے، وہ یہ سمجھے کہ اس پر اللہ کا یہ حق ہے کہ نماز کے بعد وہ صرف اپنے دائیں جانب سے پھرے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اکثر بائیں جانب سے مڑتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 159 (852)، صحیح مسلم/المسافرین 7 (707)، سنن ابی داود/الصلاة 205 (1042)، سنن النسائی/السہو 100 (1361)، (تحفة الأشراف: 9177)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/383، 429، 464)، سنن الدارمی/الصلاة 89 (1390) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ ﷺ کے حجرے آپ کے مصلّے سے بائیں جانب پڑتے تھے، آپ اکثر بائیں جانب مڑتے، اور اٹھ کر اپنے حجروں میں تشریف لے جاتے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز سے فراغت کے بعد (کبھی) دائیں اور (کبھی) بائیں جانب سے مڑتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8695، ومصباح الزجاجة: 339)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/174، 190، 215، 248) (حسن صحیح)» (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجة)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو عورتیں آپ کے سلام پھیرتے ہی کھڑی ہو جاتیں، اور آپ کھڑے ہونے سے پہلے اپنی جگہ پر تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 152 (837)، 164 (849)، سنن ابی داود/الصلاة 203 (1040)، سنن النسائی/السہو77 (1333، 1334)، (تحفة الأشراف: 18289)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/296) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے چلی جائیں جیسا کہ اس کے بعد آنے والی حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|