كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 16. بَابُ: الرُّكُوعِ فِي الصَّلاَةِ باب: نماز میں رکوع کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے، اور نہ نیچا رکھتے بلکہ ان دونوں کے بیچ سیدھا رکھتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16040، ومصباح الزجاجة: 320)، وقد أخرجہ: (مطولاً) صحیح مسلم/الصلاة 46 (498)، سنن ابی داود/الصلاة 124 (783)، مسند احمد (6/31، 110، 171، 194، 281) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس طرح کہ پیٹھ اور گردن برابر رکھتے، اور اسی طرح سے بالاجماع رکوع کرنا سنت ہے، اور اہل حدیث کے نزدیک یہ تعدیل ارکان میں داخل ہے، اور نماز میں تعدیل ارکان فرض ہے، یہی قول ائمہ ثلاثہ اور ابویوسف کا بھی ہے، لیکن ابوحنیفہ اور محمد رحمہما اللہ نے اس کو واجب کہا ہے، اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے، نماز کے آداب و شروط اور سنن کے ساتھ دو رکعت پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ بہت ساری نماز پڑھی جائیں جن میں سنت کا اہتمام نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو نیک عمل کی توفیق دے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابومسعود (عقبہ بن عمرو بن ثعلبہ انصاری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نماز درست نہیں ہوتی ہے جس کے رکوع و سجود میں آدمی اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 148 (855)، سنن الترمذی/الصلاة 81 (265)، سنن النسائی/الافتتاح 88 (1028)، التطبیق 54 (1112)، (تحفة الأشراف: 9995)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/119، 122)، سنن الدارمی/الصلاة 78 (1366) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ تعدیل ارکان نماز میں فرض ہے، اور یہی قول ہے اہل حدیث کا اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نفی کمال پر محمول ہے، اور ان کا یہی قاعدہ ہے، وہ اکثر حدیثوں کو جو اس مضمون کی آئی ہیں نفی کمال پر ہی محمول کرتے ہیں، جیسے «لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب» وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی قوم کے نمائندہ بن کر آئے تھے، وہ کہتے ہیں: ہم نکلے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی، آپ نے کنکھیوں سے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کر رہا تھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”اے مسلمانوں کی جماعت! اس شخص کی نماز نہیں ہو گی جو رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10020، ومصباح الزجاجة: 321)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/23) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ رکوع کرتے تو اپنی کمر برابر رکھتے یہاں تک کہ اگر آپ کی کمر پر پانی ڈال دیا جاتا تو وہ تھم جاتا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11739، ومصباح الزجاجة: 322) (صحیح)» (سند میں طلحہ بن زید، عثمان بن عطاء، اور ابراہیم بن محمد ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجہ بتحقیق، د؍ عوض الشہری، و مجمع الزوائد: 2/ 123)
وضاحت: ۱ ؎: سبحان اللہ، مکمل نماز اس کو کہتے ہیں، یہ تو ظاہری آداب ہیں اور دل کے خشوع و خضوع اور اطمینان اس کے علاوہ ہیں، بڑا ادب یہ ہے کہ نماز میں ادھر ادھر کے دنیاوی خیالات نہ آئیں، اور نمازی یہ سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں، اگر یہ کیفیت نہ طاری ہو سکے تو یہی سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اور اس کی ہر ایک حرکت کو دیکھ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|