سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
196. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ
باب: بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1409
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تین مساجد: مسجد الحرام، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ کے علاوہ کسی اور مسجد کی جانب (ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 95 (1397)، (تحفة الأشراف: 13283)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فضائل الصلاة 1 (1189)، سنن ابی داود/الحج 98 (2033)، سنن النسائی/المساجد 10 (701)، موطا امام مالک/الجمعة 7 (16)، مسند احمد (2/234، 238، 278، 501)، سنن الدارمی/الصلاة 132 (1461) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1409 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1409
اردو حاشہ:
فائدہ:
کسی اور مسجد، قبر، پہاڑ یاغار وغیرہ کی طرف ثواب کی نیت سےسفر کرنا یا زیارت کے لئے جانا ممنوع ہے۔
صرف یہ تین مساجد ایسی ہیں۔
جن کیطرف ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے۔
حجاج کرام کو چاہیے کہ جب مکہ سے مدینہ جایئں نیت مسجد نبوی ﷺ کی ہونی چاہیے۔
نہ کہ نبی اکرمﷺ کی قبر مبارک کی کیونکہ قبر کی نیت سےسفر کرنے کا حکم نہیں دیا گیاہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1409
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 701
´وہ مساجد جن کے لیے سفر کرنا جائز ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ثواب کی نیت سے) صرف تین مسجدوں کے لیے سفر کیا جائے: ایک مسجد الحرام، دوسری میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، اور تیسری مسجد اقصی (بیت المقدس)۔“ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 701]
701 ۔ اردو حاشیہ: کسی جگہ کو خصوصاً متبرک سمجھنا، وہاں حاضری کو افضل سمجھنا اور تقرب و خصوصی ثواب کی نیت سے دور دراز کا سفر کر کے مشقت اٹھا کر وہاں جانا جائز نہیں، خواہ وہ مسجد ہو یا کوئی قبر وغیرہ۔ یہ فضیلت صرف تین مساجد کو حاصل ہے: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ صرف ان کی زیارت کے لیے اور وہاں اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے سفر کر کے جانا جائز ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور مسجد یا قبر وغیرہ کے ساتھ ان جیسا خصوصی سلوک کرنا ان تین افضل مساجد کی توہین ہے جو قطعاً جائز نہیں، البتہ کسی عمارت کو تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھنے جانا یا سیاحت کے طور پر وہاں گھومنا پھرنا جائز ہے۔ کیونکہ یہ شرعی مسئلہ نہیں، مثلاً: کوئی شخص شاہی مسجد یا تاج محل وغیرہ دیکھنے جائے جس میں تقرب اور ثواب کا قصد نہ ہو۔ بعض حضرات نے اس روایت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان تین کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف جانا جائز نہیں، البتہ قبور صالحین کی طرف تقرب و تبرک کی نیت سے جانا جائز ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ مسجدیں جو کہ حدیث صحیح کی رو سے روئے ارض کے بہترین ٹکڑے ہیں، وہاں تو تقرب کی نیت سے جانا منع ہو مگر قبور صالحین، جن پر آپ نے مسجد بنانے اور نماز پڑھنے سے روکا ہے اور جن پر حاضری شرک تک بھی پہنچا سکتی ہے، وہاں تقرب و تبرک کے لیے جانا جائز ہو۔ اگر واقعتاً قبور صالحین متبرک مقامات ہیں تو آپ نے وہاں نماز پڑھنے اور ان پر مساجد بنانے سے کیوں روکا ہے؟ کیا اس کا کوئی معقول جواب دیا جا سکتا ہے؟ لہٰذا اس روایت کا صحیح مفہوم وہی ہے جو پہلے بیان ہوا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 701
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2033
´مدینہ میں آنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کجاوے صرف تین ہی مسجدوں کے لیے کسے جائیں: مسجد الحرام، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد اقصی کے لیے۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2033]
فوائد ومسائل:
مدینہ منورہ اس دنیا میں تمام مسلمانان عالم کا محبوب ترین شہر ہے۔
یہ ہمارے آقا ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا دارالحجرت اور مستقر ہے۔
تمام اہل السنہ والجماعۃ (اہلحدیث) اس مبارک شہر کی زیارت اور اس کے سفر کو اپنی آرزوں کی انتہا اور اپنے عظیم ترین اعمال صالحہ میں شمار کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث کی شرع میں علامہ خطابی کے کلمات بہت ہی جامع ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ارشاد نبویﷺ کا تعلق نذر سے ہے۔
یعنی اگر انسان نے کسی عام مسجد میں نماز پڑھنے کی نذر مانی ہوتو اسے اختیار ہے کہ چاہے تو اس نذر کردہ مسجد میں نماز پڑھے یا کسی اور میں پڑھ لے۔
(سبھی برابر ہیں۔
) الا یہ کہ ان تین میں سے کسی کی نذر مانی ہو تو اسے یہ اپنی نذر پوری کرنی واجب ہے۔
اور ان کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں ہمارے انبیاء ؑ کی مساجد ہیں۔
جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔
جبکہ بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اعتکاف صرف ان تین مسجدوں میں صحیح ہے۔
انتھیٰ اس معنی کی تایئد اس روایت کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔
(لاينبغي للمطيِّ أن يَشدَّ رحالهَا إلی مسجدٍ تبتغي فيه الصلاةُ غير مسجدي هذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصي) (نیل الأوطار: 110/5) یعنی بغرض نماز کسی مسجدکی طرف سواری پر پالان نہ کسا جائے۔
سوائے ان مساجد کے میری یہ مسجد مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔
شاہ عبدالعزیز کی توضیح یہ ہے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ مخذوف ہے یعنی لاتُشد الرحالُ إلی موضعٍ يُتقربُ به إلا إلی ثلاثةِ مساجدَ ان تين مساجد کے علاوہ بغرض تقرب کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔
الفاظ حدیث کا ظاہر سیاق واضح کر رہا ہے کہ ان تین محترم معظم مساجد کے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جاوے۔
(یعنی بغرض عبادت وتقرب) اور اس کی تایئد حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے ہوتی ہے۔
کہ انہوں نے بصرہ الغفاری سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہا کوہ طور سے کہا کہ اگر تمہارے اس سفر سے پہلے میری تم سے ملاقات ہوجاتی تو تم نہ جاتے میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا تھا۔
کہ (لاتعمل المطيُّ إلَّا إلی ثلاةِ مساجدَ) (سنن النسائي، الجمعة، حديث: ١٤٣١) تين مساجد كے علاوہ کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ البالغہ میں لکھا ہے۔
کہ اہل جاہلیت اپنے زعم کے مطابق کئی متبرک مقامات کا سفر کیا کرتے تھے۔
جس کا لازمی نتیجہ اللہ کے دین میں بصورت تحریف وفساد نکلتا تھا۔
تو نبی کریم ﷺنے اس فساد کا منبع ہی بند کر دیا۔
تاکہ مشروع اور غیر مشروع مشرکانہ وبدعی شعائر آپس میں خلط ملط نہ ہوں۔
اور غیر اللہ کی عبادت کا دروازہ بند ہوجائے۔
اور میرے نزدیک انہی میں سے کوئی قبر کسی ولی اللہ کی عبادت گاہ اور کوہ طور سبھی برابر ہیں۔
(بحوالہ عون المعبود) شعائر اور عبادت کے علاوہ جہاد ہجرت طلب علم۔
عزیز واقارب اور علماء سے ملاقات اور تجارت وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے لئے سفر شرعا مطلوب ہے۔
کسی نے بھی کبھی ان پر انکار نہیں کیا۔
مگر بغرض عبادت اعتکاف اور اجر مذید کی غرض سے کسی جگہ کا سفر بفرمان رسول ﷺ ان تین مساجد ہی سے خاص ہے۔
زیارت قبور کے لئے سفر کا مسئلہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریروں میں خوب خوب نکھارا ہے۔
اور نہایت قوی اور واضح براہین اور گہری بصیرت سے ثابت کیا ہے۔
کہ محض زیارت قبور کےلئے سفر کہیں کا بھی ہو جائز نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کی قبر کی بجائے وہ نیت کی جانی چاہیے جو مشروع ومرغوب فیہ ہو۔
یعنی زیارت مسجد نبوی اور اس میں نماز سفر کی یہ نیت اور غرض انتہائی مبارک مشروع اور مرغوب ہے۔
اور متضمن ہے۔
دیگر سب مشروع زیارات کو یعنی رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک مسجد قباء مقابر بقیع اور شہدائے احد۔
اور یہ نزاع اور اختلاف صرف ابتدائی نیت کے مسئلے میں ہے۔
مدینہ منورہ پہنچ کر مذکورہ بالا سبھی زیارات حاصل ہوتی ہیں۔
اور سب کی زیار ت مستحب ہے۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
لہذا علمائے اہل حدیث۔
۔
۔
كثر الله سوادهم۔
۔
۔
اس امر کے قائل وفاعل ہیں۔
کہ مدینہ منورہ میں اصلا مسجد نبوی کی زیارت کا قصد کیا جائے۔
اور بس۔
دیگر زیارات بالتبع حاصل ہوں گی۔
یہ عمل اور سفر پیارے پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کا مظہر ہے۔
بشرط یہ کہ عقیدہ صحیح اور دیگر اطوار زندگی بھی شریعت کے مطابق ہوں۔
اس سے بے رغبتی انتہائی شقاوت بدبختی۔
اور رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ ہونے کی دلیل ہے۔
ایک ضروری نکتہ یہ بھی ہے کہ زیارت مسجد نبوی کا اعمال حج سے قطعا ً کوئی تعلق نہیں ہے۔
اعمال حج اول تا آخر مکہ مکرمہ میں ہی مکمل ہوجاتے ہیں۔
سفر مدینہ ایک علیحدہ اور مستقل عمل ہے۔
اگر کوئی شخص اپنے سفر حج میں مدینہ منورہ نہ جاسکے تو اس کے حج میں کوئی نقص یا عیب نہیں ہوتا۔
(اللهم ارزقنا حبك وحب عمل يقربنا إلی حبك) اس باب كی مزکورہ بالا صحیح ترین حدیث کے مقابلے میں زیارت قبر نبوی کے سفر کے سلسلے میں پیش کی جانے والی روایات اصول حدیث کے معیار پر پوری نہیں اُترتی ہیں۔
اور دین محض جذبات یا تعصب کا نام نہیں بلکہ اتباع حق کا نام ہے۔
ان ضعیف روایات میں سے اہم روایات کی تخریج اور ان کے ضعف کی صراحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے (التلخیص الجبیر 266/2۔
حدیث: 1075) میں کردی ہے۔
مثلاً من زارَني بعدَ موتي فكأنَّما زارَني في حَياتي) جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔
(من زارَ قبرِي فلهُ الجنَّةُ) جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے۔
(من جاءني زائرًا لا تعمَلُه حاجةٌ إلَّا زيارَتِي كان حقًّا علي أن أكونَ له شفيعًا يومَ القيامةِ) جو میری زیارت کے لئے آیا جبکہ اسے سوائے میری زیارت کے اور کوئی غرض نہ ہو تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے روز اس کے لئے سفارشی بنوں (من حج ولم يزرني فقد جفاني) جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے بلاشبہ مجھ سے بے رخی کی (من زارَني بالمدينةِ محتسبًا كنتُ لهُ شفعًا و شهيدًا يومَ القيامةِ) جس نے ثواب کی غرض سے مدینے کی زیارت کی میں ا س کے لئے قیامت کے دن شفیع اور شہید بنوں گا یہ سب روایات ناقابل حجت ہیں۔
طلبہ علم اور متلاشیان حق پر واجب ہے۔
کہ سنت اور بدعت میں فرق کرنے کےلئے علماء اور راسخین فی الحدیث سے رجوع کریں۔
وباللہ التوفیق
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2033
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:973
973- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جاسکتا ہے۔ مسجد حرام، میری یہ مسجد اور مسجد اقصیٰ۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:973]
فائدہ:
اس حدیث میں مسجد نبوی مسجد حرام اور مسجد اقصٰی کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس میں ان تنیوں مساجد کے علاوہ کسی بھی مسجد کی طرف نیکی کی نیت سے سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور اس میں ان لوگوں کا بھر پور رد ہے جو درباروں کی طرف برکت کے لیے سفر کرتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 973
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3386
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر بس تین مسجدوں کے لیے کیا جا سکتا ہے، مسجد کعبہ، میری مسجد، اور مسجد ایلیا (بیت المقدس)۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3386]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی جگہ کو مقدس ومتبرک سمجھ کر،
یا اس کو اجر وفضیلت میں اضافہ کا باعث سمجھ کر،
وہاں نماز پڑھنے یا دعا مانگنے یا عبادت کی غرض سے جانا جائز نہیں ہے،
مقدس ومتبرک اور عظمت واحترام یا تقرب الٰہی کا باعث صرف یہی تین مساجد ہیں،
لیکن جگہ کو محترم و معظم سمجھے بغیر کہیں دینی ودنیوی ضرورت مثلاً حصول علم،
تجارت،
کاروبار،
عزیز واقارب کی ملاقات،
جہاد اورسیروسیاحت کے لیے جانا اس کے منافی نہیں ہے،
کیونکہ ان صورتوں میں جگہ کو متبرک ومقدس نہیں سمجھا جاتا۔
(حجۃ اللہ 3 ج1ص 192)
۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3386