سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
174. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ
باب: تہجد (قیام اللیل) پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1331
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلَانٍ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ، فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا جو رات میں تہجد پڑھتا تھا، پھر اس نے اسے چھوڑ دیا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 19 (1152)، صحیح مسلم/الصیام 35 (1159)، سنن النسائی/قیام اللیل 50 (1764)، (تحفة الأشراف: 8961)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/170) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1331 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1331
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نیکی کے کام کا معمول بن جائے تو اسے قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(2)
اپنے کسی ساتھی یاعزیز میں نیکی سے غفلت محسوس ہو تو مناسب الفاظ سے توجہ دلانا اور نیکی کی ترغیب دینی چاہیے-
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1331
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1764
´قیام اللیل (تہجد) چھوڑ دینے والے کی مذمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں کی طرح مت ہو جانا، وہ رات میں قیام کرتا تھا (تہجد پڑھتا تھا)، پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا۔“ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1764]
1764۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ساری ساری رات قیام کرتے تھے۔ اس میں خطرہ تھا کہ جسم کمزور ہو جائے گا اور دوسرے سے عبادت خصوصاً رات کی نماز کے قابل نہ رہے گا، اس لیے فرمایا کہ رات کو سونے کے بعد کچھ دیر کے لیے تہجد پڑھا کرو تاکہ جسم کمزور نہ پڑے۔ اس طرح رات کا قیام جاری رہے گا اور ترک کی نوبت نہ آئے گی۔ نیکی شروع کر کے پھر چھوڑ دینا ناپسندیدہ بات ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ نفل نیکی تھوڑی مقدار میں کی جائے جس پر پابندی اور ہمیشگی آسان ہو۔
➋ لوگوں کو کسی عیب یا کمزوری سے بچنے کا درس دینے کے لیے کسی معین شخص کا ذکر نہ کیا جائے جس میں وہ عیب پایا جاتا ہو۔
➌ نیکی کے کام کو چھوڑ دینا مناسب نہیں، اگرچہ وہ وجوب کا درجہ نہ بھی رکھتا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1764
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 301
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے عبداللہ! فلاں آدمی کی طرح تم نہ ہو جانا کہ وہ «قيام الليل» کرتا تھا پھر بعد میں اسے ترک کر دیا۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 301»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب يكره من ترك قيام الليل لمن كان يقومه، حديث:1152، ومسلم، الصيام، باب النهي عن صوم الدهر لمن تضرربه....، حديث:1159.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قیام اللیل واجب نہیں مندوب ہے۔
اور عمل خیر پر مداومت اور ہمیشگی پسندیدہ اور بہترین عمل ہے۔
2. یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک آدمی جب کسی مستحب و مندوب عمل کی عادت بنا لے تو پھر اس میں غفلت‘ تساہل اور سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
3. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی عمل شروع فرما لیتے تو اس پر دوام کرتے‘ خواہ عمل معمولی سا ہوتا۔
4. اس حدیث سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ جب کسی کی کوئی ناپسندیدہ عادت کسی دوسرے کے سامنے بیان کرنی ہو تو اس شخص کا نام نہ لیا جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
«لَا تَکُنْ مِثْلَ فُلَانٍ» فرمایا‘ اس شخص کا نام نہیں لیا۔
اس آدمی کا نام ظاہر نہ کر کے پردہ پوشی فرمائی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 301
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1152
1152. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح مت ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھا کرتا تھا، پھر اس نے قیام اللیل ترک کر دیا۔“ ہشام نے کہا: مجھے ابن ابو عشرین نے اپنی پوری سند کے ساتھ اسی طرح خبر دی ہے۔ عمرو بن ابوسلمہ نے بھی امام اوزاعی سے بیان کرنے میں ابن ابو عشرین کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1152]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
عباس بن حسین سے امام بخاری ؒ نے اس کتاب میں ایک یہ حدیث اور ایک جہاد کے باب میں روایت کی، پس دوہی حدیثیں۔
یہ بغداد کے رہنے والے تھے۔
ابن ابی عشرین یہ امام اوزاعی کا منشی تھا، اس میں محدثین نے کلام کیا ہے، مگر امام بخاری ؒ اس کی روایت متابعتاً لائے۔
ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی سند کو امام بخاری اس لیے لائے کہ اس میں یحیٰ بن ابی کثیر اور ابو سلمہ میں ایک شخص کا واسطہ ہے، یعنی عمرو بن حکم کا اور اگلی سند میں یحیٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے خود ابو سلمہ نے بیان کیا تو شاید یحیٰ نے یہ حدیث عمرو کے واسطے سے اور بلا واسطہ دونوں طرح ابو سلمہ سے سنی۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1152
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1152
1152. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح مت ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھا کرتا تھا، پھر اس نے قیام اللیل ترک کر دیا۔“ ہشام نے کہا: مجھے ابن ابو عشرین نے اپنی پوری سند کے ساتھ اسی طرح خبر دی ہے۔ عمرو بن ابوسلمہ نے بھی امام اوزاعی سے بیان کرنے میں ابن ابو عشرین کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1152]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عبادت کو بجا لانے کا انسان عادی بن جائے اسے بلا وجہ ترک نہیں کرنا چاہیے اگرچہ وہ عبادت نفل ہی ہو۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عبادت کے سلسلے میں عدم تشدد کے بعد اسے بیان کیا ہے کہ عبادت کے التزام پر میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ تشدد کرنے سے بعض اوقات انسان اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
الغرض نیکی کے کام میں سہولت اور آسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوام اور ہمیشگی کرنی چاہیے۔
حدیث کے آخر میں جو متابعت ہے اسے امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 49/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1152