Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
14. بَابُ : الْجَهْرِ بِآمِينَ
باب: آمین زور سے کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 856
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16074، ومصباح الزجاجة: 313)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/125) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 856 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث856  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
آپس میں سلام اور نماز میں آمین کہنا مسلمان معاشرے کی ایک ایسی خوبی ہے۔
جسے غیر مسلم بھی محسوس کرتے ہیں۔

(2)
حسد کی وجہ سے وہ خود تو اس نیکی کو اختیار نہیں کرتے۔
البتہ یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ مسلمان ایسی خوبیوں سے محروم ہوجایئں۔

(3)
آپس میں ملاقات کے وقت مسلمانوں کا طریقہ السلام علیکم اور وعلیکم السلام کہنا ہے۔
جو مختصر الفاظ کا ایک جملہ ہونے کے باوجود ایک بہترین دعا ہے۔
یہودونصاریٰ اولاً تو ہاتھ کے اشارے پراکتفا کرتے ہیں۔
یا ہیلو، ہائے کے الفاظ بولتے ہیں۔
جن میں دعا کا عنصر سرے سے شامل نہیں یا گڈمارننگ، گڈ ایوننگ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
جس میں خیر کی خواہش محدود کردی گئی ہے۔
صُبح بخیر، شب بخیر وغیرہ کے الفاظ بھی انہی کی نقل ہیں۔
جب کہ مسلمانوں کا طریقہ دعا پر مبنی ہے۔
اور دعا بھی محدود وقت کے لئے نہیں۔
ان لوگوں کا رویہ قابل افسوس ہے۔
جو اس بہترین دعا کوچھوڑ کر غیر مسلموں کے فضول اور بے فائدہ جملے اختیار کرتے ہیں۔

(4)
آمین کا مطلب ہے۔
قبول فرما یہ گویا مفصل دعا کے بعد مختصر انھی دعائوں کی تکرار ہے۔
یہود ونصاریٰ بھی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔
ہوسکتا ہے۔
یہ انھوں نے مسلمانوں ہی سے سیکھا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے انبیائے کرام علیہ السلام کی جو تعلیمات تحریف سے بچ کر ان تک پہنچ گئی ہیں۔
ان میں یہ بھی شامل ہو۔
اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ یہ خوبیوں بھرا لفظ مسلمانوں کے استعمال میں آئے۔
ان کی حالت تو وہ ہے۔
جو قرآن مجید نے بیان کی ہے کہ ﴿مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ﴾  (البقرۃ: 105)
 اہل کتاب اور (دیگر)
مشرکین اور کافر یہ پسند نہیں کرتے۔
کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھی بھلائی نازل ہو۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ کافروں کے بہکاوے میں نہ آیئں اور سلام اور آمین جیسے پاکیزہ آداب سے کنارہ کش نہ ہوں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 856