Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
14. بَابُ : الْجَهْرِ بِآمِينَ
باب: آمین زور سے کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 852
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَرَّانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ جَمِيعًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ، فَأَمِّنُوا، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام (آمین) کہے تو تم بھی آمین کہو ۱؎، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الافتتاح 33 (929)، (تحفة الأشراف: 13287)، وحدیث سلمة بن عبد الرحمن تفرد بہ ابن ماجہ 15302، (تحفة الأشراف: 15302) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی پہلے امام بلند آواز سے آمین کہے، پھر مقتدی بھی آواز سے آمین کہیں، اور اس کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ آمین آہستہ سے کہنا چاہئے، اور دلیل دیتے ہیں وائل کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب «غير المغضوب عليهم ولا الضالين» پر پہنچے تو آہستہ سے آمین کہی، (مسند امام احمد، مسند ابویعلی، طبرانی، دارقطنی، مستدرک الحاکم) ہم کہتے ہیں کہ خود اس حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے، ورنہ وائل نے کیوں کر سنا اور سفیان نے اس حدیث کو وائل سے روایت کیا، اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی بلند آواز سے، اور صاحب ہدایہ نے آمین کو دھیرے سے کہنے پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا ہے، اور وہ روایت ضعیف ہے، نیز صحابی کا قول مرفوع حدیثوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد اخفاء سے یہ ہو کہ زور سے کہنے میں مبالغہ نہ کرے، «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم