Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
153. . بَابُ : مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الاِسْتِسْقَاءِ
باب: نماز استسقا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1266
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كِنَانَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَمِيرٌ مِنَ الْأُمَرَاءِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا مَنَعَهُ أَنْ يَسْأَلَنِي؟، قَالَ:" خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاضِعًا، مُتَبَذِّلًا، مُتَخَشِّعًا، مُتَرَسِّلًا، مُتَضَرِّعًا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَمَا يُصَلِّي فِي الْعِيدِ، وَلَمْ يَخْطُبْ خُطْبَتَكُمْ هَذِهِ".
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) روانہ ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 258 (1165)، سنن الترمذی/الصلاة 278 (الجمعة43) (558، 559)، سنن النسائی/الاستسقاء 3 (1507)، 4 (1509)، 13 (1522)، (تحفة الأشراف: 5359)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/230، 260، 355) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 534)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے استسقاء کئی بار مختلف طریقوں سے کیا لیکن جو طریقہ سنت کا اپنی امت کے لئے اختیار کیا وہ یہ ہے کہ لوگوں سمیت نہایت عاجزی کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے، اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں زور سے قراءت کی، پھر خطبہ پڑھا، اور قبلے کی طرف منہ کیا، خطبہ میں دعا مانگی، اور دونوں ہاتھ اٹھائے، اور اپنی چادر پلٹی، استسقاء کی نماز دو رکعت مسنون ہے، ان کے بعد خطبہ ہے، اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاء میں صرف دعا اور استغفار کافی ہے، جب کہ متعدد احادیث میں نماز وارد ہے، اور جن حدیثوں میں نماز کا ذکر نہیں ان سے نماز کی نفی لازم نہیں آتی، اور ابن ابی شیبہ نے جو عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ استسقاء کو نکلے پھر نہ زیادہ کیا استغفار پر، یہ ایک صحابی کا موقوف اثر ہے، قطع نظر اس کے سنت کے ترک سے اس کی سنیت باطل نہیں ہوتی، اور اسی پر وہ مرفوع حدیث بھی محمول ہو گی جس میں نماز کا ذکر نہیں ہے، اور صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کا وسیلہ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ لیا، اس معنی میں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود استسقاء کی نماز ادا فرمائی، اور بارش کی دعا کی، آپ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے یہاں اور کون تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو نماز استسقاء کے لیے آگے بڑھایا کیونکہ آپ کی بزرگی، صالحیت اور اللہ کے رسول سے تعلق کی وجہ سے اس بات کی توقع کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی دعا قبول ہو گی، اور بعض روایتوں میں نماز سے پہلے خطبہ وارد ہے، اور دونوں طرح صحیح ہے، (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ)۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1266 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1266  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  استسقاء کا مطلب ہے پانی طلب کرنا یا پانی پلانے کی درخواست کرنا، یہ نمازایسے موقع پر اد ا کی جاتی ہے۔
جب بارش کی ضرورت ہو لیکن دن گزرتے چلے جایئں۔
اور بارش نہ ہو۔
اس صورت میں زرعی پیداوار کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے قحط کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
اس لئے اسے نماز استسقاء کہتے ہیں۔
یعنی بارش کی دعا کےلئے نماز پڑھنا۔

(2)
نماز استسقاء کے موقع پر بے چارگی اور مسکنت کے اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لئے لباس میں چال میں حرکات وسکنات میں عجزاور فروتنی کا اظہار ہونا چاہیے۔

(3)
استسقاء کی نماز دو رکعت ہے۔
اور اس کا وقت بھی سورج کے نکلنے کے بعد کا ہے۔
علاوہ ازیں وہ باہر کھلے میدان یعنی عید گاہ میں ادا کی جاتی ہے۔
اس لئے حضرت ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے عید کی نماز سے تشبیہ دی۔

(4)
تمھارے خطبے جیسا خطبہ نہیں دیا۔
اس کامطلب یہ ہے کہ خطبہ بھی بنیادی طور پر دعا ہی پر مشتمل تھا۔
اس کو تمہاری طرح غیر ضروری باتیں کرکے طول نہیں دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1507  
´استسقاء کے لیے جب امام نکلے تو اس کی ہئیت کیسی ہو؟`
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ فلاں نے مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس بھیجا کہ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقاء کے بارے میں پوچھوں۔ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (استسقاء کی نماز کے لیے) عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے پھٹے پرانے کپڑے میں نکلے، تو آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا ۱؎ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1507]
1507۔ اردو حاشیہ:
➊ اللہ تعالیٰ سے دعا کے وقت عاجزی، خشوع خضوع اور سادگی بڑی مؤثر چیز ہے۔
تمہارے اس خطبے کی طرح یعنی آپ نے خطبہ تو دیا تھا مگر وہ تمہارے خطبوں کی طرح نہیں تھا بلکہ اس میں دعائے استغفار اور عاجزی کا اظہار تھا، کوئی تقریر نہ تھی۔
➌ جمہورعلماء کے نزدیک امام نماز پڑھا کر خطبہ دے، تاہم قبل از نماز بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1507   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1509  
´بارش کی دعا کے لیے امام کے منبر پر بیٹھنے کا بیان۔`
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استسقاء کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے کپڑوں میں عاجزی اور گریہ وزاری کا اظہار کرتے ہوئے نکلے، اور منبر پر بیٹھے، تو آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا، بلکہ آپ برابر دعا اور عاجزی کرتے رہے، اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی جیسے آپ عیدین میں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستسقاء/حدیث: 1509]
1509۔ اردو حاشیہ: عیدین کی نماز کے ساتھ مشابہت رکعات کی تعداد، وقت، یعنی اس کا وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہے، نیز جگہ، یعنی یہ نماز بھی باہر کھلے میدان میں ادا کی جاتی ہے اور جماعت میں ہے، مکمل طور پر مشابہت نہیں کیونکہ اس میں عیدین کی نماز کی طرح زائد تکبیرات نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1509   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1165  
´نماز استسقا اور اس کے احکام و مسائل۔`
ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے ولید بن عتبہ نے (عثمان کی روایت میں ولید بن عقبہ ہے، جو مدینہ کے حاکم تھے) ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا کہ میں جا کر ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقا کے بارے پوچھوں تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کے ساتھ گریہ وزاری کرتے ہوئے عید گاہ تک تشریف لائے، عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ منبر پر چڑھے، آگے دونوں راوی روایت میں متفق ہیں: آپ نے تمہارے ان خطبوں کی طرح خطبہ نہیں دیا، بلکہ آپ برابر دعا، گریہ وزاری اور تکبیر میں لگے رہے، پھر دو رکعتیں پڑھیں جیسے عید میں دو رکعتیں پڑھتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت نفیلی کی ہے اور صحیح ولید بن عقبہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1165]
1165۔ اردو حاشیہ:
عید سے مشابہت وقت عدم اذان، عدم تکبیر، عدد رکعات اور نماز مقدم کرنے اور خطبہ موخر کرنے میں ہے استسقاء میں عید کی طرح زائد تکبیرات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1165   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 406  
´نماز استسقاء کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تواضع کے ساتھ سادہ لباس میں نہایت عاجزی و انکساری، بہت خشوع اور بڑی زاری اور تضرع کرتے ہوئے نماز کے لئے باہر نکلے۔ عید کی نماز کی طرح لوگوں کو دو رکعات نماز پڑھائی۔ تمہارے خطبہ کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا۔
اس روایت کو پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابوعوانہ اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 406»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، صلاة الاستسقاء، باب جماع أبواب صلاة الاستسقاء وتفريعها، حديث:1165، والترمذي، الجمعة، حديث:558، والنسائي، الاستسقاء، حديث:1507، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1266، وأحمد:1 /230، 269، 355، وابن حبان(الإحسان):4 /229، حديث:2851، وأبوعوانه:6 /33، القسم المفقود.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز استسقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
استسقا کے لغوی معنی ہیں: پانی کے لیے درخواست کرنا‘ دعا کرنا۔
شرعی اصطلاح کی رو سے ایک مخصوص کیفیت سے نماز پڑھنا۔
2. استسقا کی دو قسمیں ممکن ہیں: ادنیٰ اور اعلیٰ۔
ادنیٰ کی صورت یہ ہے کہ صرف دعا کی جائے اور اعلیٰ کی صورت یہ ہے کہ طلب بارش کے لیے باہر نکل کر عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کی حالت میں نماز استسقا ادا کی جائے اور خوب عاجزی کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کی جائے۔
دعا کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد ہاتھوں کی پشت چہرے کی طرف کر کے دعا مانگی جائے۔
(صحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین…‘ حدیث:۸۹۶) 3.نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دعا بھی ثابت ہے جیسا کہ خطبۂجمعہ کے دوران میں ایک آدمی نے آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ نے اسی وقت منبر پر کھڑے ہوئے دعا فرمائی جس کے نتیجے میں بارش شروع ہوگئی اور آئندہ جمعے تک مسلسل ہوتی رہی۔
اس سے معلوم ہوا کہ خطیب خطبے کے دوران میں دعا کر سکتا ہے‘ اس وقت قبلہ رو ہونا بھی ضروری نہیں۔
4.خطبے کے دوران میں خطیب سے گفتگو ہو سکتی ہے۔
5.خطیب دوسرے کی درخواست پر عمل کرنے کا مجاز ہے۔
6.استسقا کی نماز دو رکعت ہے اور اس کا وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہے۔
علاوہ ازیں وہ باہر کھلے میدان‘ یعنی عیدگاہ میں ادا کی جاتی ہے‘ اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے عید کی نماز سے تشبیہ دی۔
7.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ روایت جس میں تکبیرات عیدین کی طرح پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیروں کا ذکر ہے‘ محققین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(سنن الدارقطني: ۲ / ۶۷‘ ۶۸) 8.تمھارے اس خطبے کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ بھی بنیادی طور پر دعا ہی پر مشتمل تھا‘ اسے تمھاری طرح غیر ضروری باتیں کر کے طول نہیں دیا۔
9.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں لکھا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز استسقا ادا کرنے کے کئی طریقے منقول ہیں۔
مسنون طریقہ یہ ہے کہ سارے لوگ شہر سے یا آبادی سے باہر جمع ہوں۔
لباس پھٹا پرانا ہو‘ ڈرتے ہوئے اللہ کے حضور گریہ و زاری کریں۔
اس کے بعد امام انھیں دو رکعت نماز باجماعت پڑھائے اور قراء ت بلند آواز سے کرے۔
اس کے بعد خطبہ پڑھے اور قبلہ رو ہو کر دعا مانگے۔
اس دوران میں چادر کو الٹا کرے۔
جس کا طریقہ تفصیل کے ساتھ آگے آ رہا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 406   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 558  
´نماز استسقاء کا بیان۔`
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ مجھے ولید بن عقبہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس بھیجا (ولید مدینے کے امیر تھے) تاکہ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استسقاء کے بارے میں پوچھوں، تو میں ان کے پاس آیا (اور میں نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھٹے پرانے لباس میں عاجزی کرتے ہوئے نکلے، یہاں تک کہ عید گاہ آئے، اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ برابر دعا کرنے، گڑگڑانے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے، اور آپ نے دو رکعتیں پڑھیں جیسا کہ آپ عید میں پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 558]
اردو حاشہ:
1؎:
اسی سے امام شافعی وغیرہ نے دلیل پکڑی ہے کہ استسقاء میں بھی بارہ تکبیرات زوائد سے دو رکعتیں پڑھی جائیں گی،
جبکہ جمہور نمازِ جمعہ کی طرح پڑھنے کے قائل ہیں اور اس حدیث میں ((كَمَا كَانَ يُصَلِّي فِي الْعِيدِ)) سے مراد یہ بیان کیا ہے کہ جیسے:
آبادی سے باہر جہری قراء ت سے خطبہ سے پہلے دو رکعت عید کی نماز پڑھی جاتی ہے،
اور دیگر احادیث و آثار سے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے،
صاحب تحفہ نے اسی کی تائید کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 558