حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي مِنِ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ".
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1174
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تہجد کی نمازدو دو رکعت کرکے ادا کی جاتی ہے۔
(2)
تہجد کے بعد ایک وتر پڑھ لینا کافی ہے۔
لیکن ایک سلام سے تین یا پانچ رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
(3)
ایک وترپڑھنے کی بابت رسول للہ ﷺ نے فرمایا۔
مَنْ اَحَبَّ اَن يُّوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ (سنن ابی داؤد، الوتر، باب کم الوتر، حدیث: 1422)
”جوکوئی ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے۔
تو ایک رکعت (وتر)
پڑھے“ اس سے بلا نفل بھی ایک رکعت وتر پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔
اگرچہ آپﷺکے عمل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔
کہ نوافل کی ادایئگی کے بعد ہی آپﷺنے ایک رکعت وتر پر اکتفا کیا ہے۔
آپﷺ کے اس عمل کو قوی حدیث کے مخالف نہیں سمجھنا چایے۔
کیونکہ جیسے آپﷺ کا عمل امت کےلئے قابل اتباع ہے۔
ویسے آپ ﷺ کا قول اور تقریر بھی قابل عمل ہیں۔
صرف ایک رکعت وتر کی موافقت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔
ان کے بارے میں مروی ہے۔
کہ وہ نمازعشاء مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر ہی پڑھا کرتے تھے۔
۔
دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند أحمد: 64/3 ومصنف عبد الرزاق، 22، 21/3 وابن ابی شیبة: 292/2)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1174
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 163
´رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں`
«. . . مالك عن نافع وعبد الله بن دينار عن عبد الله بن عمر: ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي احدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى . . .»
”. . . سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آ دمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے، اس نے جو نماز پڑھی ہے یہ اسے وتر بنا دے گی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 163]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 990، ومسلم 749، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ وتر ایک رکعت ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ایک وتر پڑھتے تھے۔ [الموطا 125/1 ح272 وسنده صحيح]
◈ آپ رضی اللہ عنہ اگر تین وتر پڑھتے تو دو رکعتوں پر سلام پھیر دیتے اور ایک رکعت علیحدہ پڑھتے۔ [الموطا 125/1 ح 273 وسنده صحيح]
◈ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح ابن حبان الاحسان: 2426 دوسرا نسخه: 2435 وسنده صحيح]
➌ مغرب کی طرح تین وتر پڑھنا ممنوع ہے۔ [ديكهئے صحيح ابن حبان: 2420 وسنده صحيح]
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سلام کے ساتھ تین وتر اکھٹے پڑھنا ثابت نہیں ہیں۔ جن روایات میں ایک سلام کے ساتھ تین رکعتیں آئیں ہیں، وہ سب کی سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔
➎ خلیل أحمد سہارنپوری انبیٹھوی دیوبندی نے انوار ساطعہ نامی کتاب کے بدعتی مصنف کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے: ”وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہما صحابہ رضی اللہ عنہ اس کے مقر اور مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ و أحمد رحمہ اللہ کا وہ مذہب پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانا۔“ [براهين قاطعه ص7]
➏ نفل (سنت) دو دو رکعت پڑھنا افضل ہے، خواہ دن ہو رات۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 1295، وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 202
الشيخ حافظ زبير علي زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 1295
SR سوال: ER محترم فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی صاحب کیا ظہر اور عصر کی چار سنت کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرنا جائز ہے؟ [ایک سائل]
الجواب:
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«صلوة الليل و النهار مثنيٰ مثنيٰ»
”رات اور دن کی (نفل، سنت) نماز دو دو (رکعتیں) ہے۔“ [سنن ابي داؤد: 1295 و سنده حسن]
↰ اسے ابن خزیمہ [1210] ابن حبان [636] اور جمہور محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔ [ديكهئے ميري كتاب نيل المقصود فى التعليق على سنن ابي داؤد ج 1 ص 371]
معرفۃ علوم الحدیث للحاکم [ص 58 ح 101] میں اس کی ایک مؤید روایت ہے جس کی سند حسن ہے، اس کے باوجود امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے «وهم» قرار دیا ہے!
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ:
«صلوة الليل و النهار مثني مثني»
”رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو (رکعتیں) ہے۔“ [السنن الكبري للبيهقي ج 2 ص 487وسنده صحيح ولاعلة فيه]
اس سے معلوم ہوا کہ سنن ابی داؤد والی حدیث سابق صحیح لغیرہ ہے۔ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ چار سنتیں دو دو کر کے دو سلاموں کے ساتھ پڑھنی چاہئیں۔
❀ نافع (تابعی) سے روایت ہے کہ (سیدنا) عبداللہ بن عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) دن کو چار چا ر رکعتیں (سنت) پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: ج2 ص 274ح 6634 و سنده صحيح]
عبداللہ بن عمر العمری «(صدوق حسن الحديث عن نافع، ضعيف عن غيره) عن نافع» کی سند سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما رات کو دو دو رکعت اور دن کو چار رکعت (نوافل) پڑھتے تھے، پھر سلام پھیرتے تھے۔ [مصنف عبدالرزاق 501/2 ح 4225 و اسناده حسن]
اس روایت کی دوسری سند سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحیح لغیرہ ہے۔ [ديكهئے مصنف عبدالرزاق ح 4226]
امام ابن المنذر النیسابوری نے اسے «ثابت عن ابن عمر» قرار دیا ہے۔ [الاوسط 236/5]
تنبیہ: عبداللہ بن عمر العمری کی مصنف عبدالرزاق والی روایت الاوسط میں «أخبرنا عبدالله بن عمر عن نافع عن أبن عمر» إلخ کی سند سے چھپی ہوئی ہے!
اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایک سلام میں چار سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے۔
لیکن بہتر یہی ہے کہ مرفوع حدیث کی وجہ سے وتر کے علاوہ تمام سنتیں اور نوافل دو دو کر کے پڑھے جائیں۔
◈ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«صلوة النهار ركعتان ركعتان»
”دن کی نماز دو دو رکعتیں ہے۔“ [مسائل الإمام أحمد و إسحاق بن راهويه، رواية إسحاق بن منصور الكوسج 205/1 فقره: 433 وسنده صحيح، الأشعث هو ابن عبد الملك الحمراني]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ دن کی نفل نماز دو دو کر کے پڑھتے تھے۔ [ايضاً فقره: 405]
«لقد كان لكم فى رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة حسنة،»
«وما علينا إلاالبلاغ»
تحریر الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2
تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
ایک رکعت وتر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔ [صحيح البخاري: 990]
تخریج:
[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 3142 ح“ 1390 صحيح البخاري: 6356: وسنده صحيحٌ]
------------------
دیگر صحابہ کرا م کا عمل
نافع رحمہ اللہ، سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
«أنه كان يوتر بركعتة»
”آپ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔“ [الاوسط لابن لمنذر: 179/5، وسنده صحيحٌ]
ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مکہ و مدینہ کے درمیان عشاء کی نماز دو رکعت اداکی، پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت وتر پڑھا۔ [الاوسط لابن لمنذر: 179/5، وسنده صحيحٌ]
جریر بن حازم بیان کرتے ہیں:
«سألت عطاء: أوتر بركعة؟ فقال: نعم، إن شئت۔»
”ميں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ کیا میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا کروں؟ فرمایا: ہاں اگر چاہے تو پڑھ لیا کر۔“ [مصنف ابن ابي شيبة: 292/2، وسنده صحيحٌ]
ایک تین، پانچ اور سات وتر احناف کی نظر میں
ایک، تین، پانچ اور سات رکعات وتر پڑھناجائز ہیں۔ ➍ جناب عبدالشکور فاروقی لکھنوی دیو بندی لکھتے ہیں:
”یہ (صرف تین وتر پڑھنا) مذہب امام صاحب کا ہے۔ ان کے نزدیک ایک رکعت کی وتر جائز نہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وتر میں ایک رکعت بھی جائز ہے۔ دونوں طرف بکثرت احادیث صحیحہ موجود ہیں۔“ [علم الفقه از عبدالشكور اللكونوي: حصه دوم: 182]
۔۔۔، حدیث/صفحہ نمبر: 22
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1667
´تہجد کی نماز کیسے پڑھی جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے“ ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: میرے خیال میں اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے ۲؎ واللہ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1667]
1667۔ اردو حاشیہ: امام نسائی رحمہ اللہ کا عندی خطا کے ساتھ لفظ ”دن“ کی طرف اشارہ ہے۔ کثیر روایات میں صرف رات کی نماز کا ذکر ہے، نیز بعض علماء کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کا صرف ایک شاگرد ”دن اور رات“ دونوں کا ذکر کرتا ہے جس کا نام علی الازدی ہے اور یہ ثقہ ہے، اس لیے یہ کہنا کہ دن کی نماز بھی دورکعت پڑھنا افضل اور مستحب ہے، درست نہیں لیکن اکثر محققین کے نزدیک روایت میں مذکور ”دن“ کا اضافہ بھی صحیح ہے کیونکہ حدیث کے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دیگر طرق بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ اضافے کا ذکر ملتا ہے، نیز کچھ شواہد سے بھی اس کی تائید ہوتی ے ہ، اس لیے یہ حدیث لفظ «النھار» کے اضافے کے ساتھ صحیح ہے، اسے امام بخاری رحمہ اللہ، احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان، بیہقی اور علامہ خطابی رحم اللہ علیہم نے صحیح قرار دیا ہے، اس لیے امام نسائی رحمہ اللہ کا لفظ نھار کو خطا کہنا محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی، رقم الحدیث: 1176، و جامع الترمذی بتحقیق الشیخ احمد شاکر: 2؍492، حدیث: 597) بنابریں معلوم ہوا کہ دن کے وقت بھی نفل نماز دو دو کر کے پڑھنا افضل ہے اگرچہ اکٹھی چار پڑھنا بھی جائز ہے۔ یا ان سنن اور نوافل کو چار پڑھنا افضل اور مستحب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت چار پڑھے ہیں باقی کو دو دو کر کے یا اکٹھے چار پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 18؍14۔ 20)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1667
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1668
´تہجد کی نماز کیسے پڑھی جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ”دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1668]
1668۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مشہور روایت ہے جس میں صرف رات کی نماز کا ذکر ہے۔
➋ ”دودو کر کے“ مگر اس طرح واجب نہیں افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اکٹھے تین یا اکٹھے پانچ یا اکٹھے سات اور اکٹھے نو وتر (قیام اللیل) کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 752) اور اسے معمول بنایا جا سکتا ہے لیکن تنوع افضل ہے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر و بیشتر معمول گیارہ رکعت ہی تھا۔ اگر وقت کم ہو تو کم بھی پڑھے جاسکتے ہیں کیونکہ کم پڑھنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1668
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1675
´تہجد کی نماز کیسے پڑھی جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا: اللہ کے رسول! رات کی نماز کیسے پڑھی جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں صبح ہو جانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو۔“ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1675]
1675۔ اردو حاشیہ: اتنی کثیر سندوں سے اس مشہور حدیث کے ہوتے ہوئے احناف کا آخر میں ایک رکعت پڑھنے کو جائز نہ سمجھنا، یا بلادلیل منسوخ کہنا دلائل سے انحراف کے مترادف ہے جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی روایات میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل یہی بیان کیا گیا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے، ہاں! ایک اسلام کے ساتھ، درمیان میں تشہد کیے بغیر، تین اکٹھے پڑھنا بھی جائز ہے خصوصاً جب وہ عشاء کی نماز کے فوراًً بعد ہوں تو بہتر ہے کہ تین اکٹھے پڑھے جائیں، البتہ تراویح یا تہجد میں ایک رکعت کو الگ پڑھا جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی عمل یہی تھا، نیز دونوں قسم کی روایات میں تطبیق کی یہ بھی ایک صورت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1675
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1692
´وتر میں کتنی رکعتیں ہیں؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ دیہات والوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: ”دو دو رکعت ہے، اور وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1692]
1692۔ اردو حاشیہ:
➊ اصل وتر ایک رکعت ہے مگر اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نوافل پڑھنے چاہییں یہ ایک رکعت ان سب کو وتر (طاق) بنادے گی۔ باب کی پہلی دو روایات مجمل ہیں۔ تیسری روایت ان کا مطلب واضح کرتی ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھنے سے پہلے کم از کم دو رکعت ضرور پڑھے۔ اگر صرف ایک رکعت ہی پر اکتفا کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے۔
➋ احناف نے وتر کو تین رکعت ہی مقرر کر لیا ہے۔ نہ کم، نہ زیادہ مگر اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ تحدید صریح روایات کے خلاف ہے، پھر ان کے نزدیک چونکہ یہ واجب ہے، لہٰذا تین رکعات ایک ہی سلام سے ہوں گی، حالانکہ صریح روایات ایک رکعت الگ پڑھنے کو جائز بلکہ مستحب قرار دیتی ہے۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1692
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1295
´دن کی نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔“ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1295]
1295۔ اردو حاشیہ:
مستحب اور افضل یہ ہے کہ نوافل دن کے ہوں یا رات کے دو رکعت کر کے پڑھے جائیں، ایک سلام سے چار رکعت بھی جائز ہیں جیسے کہ سنن ابي داود گزشتہ حدیث [1270] میں گزرا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث میں ”دن“ کے ذکر کو وہم قرار دیا ہے۔ جب کہ دوسرے علماء نے اسے ثقہ راوی کی زیادت قرار دیا ہے جو کہ مقبول ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [التعليقات السلفية: 1/198]
اس لیے سنن و نوافل، چاہے دن کے ہوں یا رات کے، دو دو کر کے پڑھناراجح ہے، گو بیک سلام، چار رکعات بھی جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1295
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 291
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” رات کی نماز دو، دو رکعت کی صورت میں (پڑھی جائے) اور جب تم میں سے کسی کو صبح کے طلوع ہونے کا خدشہ و اندیشہ لاحق ہونے لگے تو (آخر میں) ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ رکعت اس کی ساری نماز کو وتر بنا دے گی۔“ (بخاری و مسلم)۔
اور پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی دہ روایت اسی طرح ہے۔ اور ابن حبان نے «صلاة الليل والنهار مثنى مثنى» ” دن رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔“ کو صحیح قرار دیا ہے۔ البتہ نسائی نے کہا ہے کہ یہ خطا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 291»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب كيف صلاة النبي صلي الله عليه وسلم....، حديث: 1137، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الليل مثني مثني، حديث:749، وحديث "صلاة الليل والنهار مثني مثني" أخرجه أبوداود، التطوع، حديث:1295، والترمذي، الجمعة، حديث:597، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1322، والنسائي، قيام الليل، حديث:1667، وأحمد:2 /26، 51، وابن حبان (الإحسان):4 /86، حديث:2473 وهو حديث حسن.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رات کے اوقات میں پڑھی جانے والی نماز کو دو دو رکعتوں کی صورت میں پڑھنا چاہیے اور دو کے بعد سلام پھیرنا چاہیے۔
امت کی غالب اکثریت نے اسی کو تسلیم کیا ہے۔
2. دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک بھی ثابت ہے بلکہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ وتر کی نماز کی تعداد ایک ہی ہے۔
لیکن احادیث سے تین‘ پانچ‘ سات‘ نو اور گیارہ تک کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
3.جہاں تک امام نسائی رحمہ اللہ کے لفظ اَلنَّھَار کو خطا کہنے کا تعلق ہے‘ ان کی یہ رائے محل نظر ہے‘ اس لیے کہ امام بخاری‘ امام ابن حبان اور امام بیہقی رحمہم اللہ وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں اسے ذکر کیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دن ہو یا رات نوافل دو دو کی تعداد میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے کیونکہ دو دو رکعتوں کے پڑھنے کی صورت میں درود اور بعد از درود دعائیں زیادہ مرتبہ پڑھی جائیں گی‘ اس لیے ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
ویسے دن کو دو دو کر کے پڑھے یا چار چار دونوں طرح جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دن کو چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا بھی ثابت ہے۔
(سنن أبي داود‘ التطوع‘ حدیث:۱۲۷۰‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
) 4. ایک رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں تو تشہد ایک ہی مرتبہ پڑھا جائے گا‘ اگر تین یا اس سے زائد پڑھے تو کیا صورت ہوگی؟ احمد‘ نسائی‘ بیہقی اور حاکم وغیرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت نقل کی ہے اس میں تو صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تین وتر پڑھتے تھے تو صرف آخری رکعت ہی میں تشہد پڑھا کرتے تھے‘ اس لیے صحیح یہ ہے کہ تین رکعت وتر پڑھے جائیں تو درمیان میں تشہد نہ پڑھا جائے۔
مگر احناف رات کے وتروں کو مغرب کی تین رکعات پر قیاس کر کے دو مرتبہ تشہد پڑھنے کے قائل ہیں‘ حالانکہ وتروں کو مغرب کی نماز کی طرح پڑھنے کی ممانعت حدیث میں صراحتاً وارد ہے۔
دیکھیے:
(سنن الدارقطني:۲ / ۲۵۔
۲۷‘ وابن حبان‘ حدیث:۶۸۰) بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 291
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1175
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت اور وتر ایک رکعت ہے“، ابومجلز (لاحق بن حمید) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آپ مجھے بتائیے کہ اگر میری آنکھ لگ جائے، اگر میں سو جاؤں؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر مگر اس ستارے کے پاس لے جاؤ، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو ستارہ سماک ۱؎ چمک رہا تھا، پھر انہوں نے وہی جملہ دہرایا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور وتر صبح سے پہلے ایک رکعت ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1175]
اردو حاشہ:
فوئادی ومسائل:
(1)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین حدیث پر پوری طرح عمل کرتے تھے۔
اور اس میں شبہ کرنے والے یا اگر مگر کےسوالات نکلانے والے پر ناراض ہوتے تھے۔
(2)
اگر خیال ہو کہ فجر سے پہلے آنکھ نہیں کھلے گی۔
تو عشاء کے بعد ہی تہجد اوروتر کی نمازادا کر لینی چاہیے- دیکھئے: (حدیث: 1187)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1175
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1318
´تہجد (قیام اللیل) دو دو رکعت پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نفل نماز دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1318]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز تہجد کو صلاۃ اللیل (را ت کی نماز)
کہا جاتا ہے۔
کیونکہ اس كا وقت عشاء کے بعد شروع ہوکر صبح صادق طلوع ہونے پر ختم ہوتا ہے۔
(2)
نماز تہجد بہت فضیلت کی حامل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم، حدیث: 1163)
(2)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد عام طور پر دو دو رکعت کرکے ادا کرتے تھے۔
یعنی دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے لیکن چارچار رکعت پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے۔
آپ ان رکعتوں کی خوبصورتی اور طول کے بارے میں کچھ نہ پوچھیں (کہ بیان نہیں ہوسکتا)
پھر چار رکعتیں پڑھتے آپ ان کی خوبصورتی اور طول کے بارے میں کچھ نہ پوچھیں پھر تین رکعت (وتر)
پڑھتے (صحیح البخاري، التهجد، باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ، حدیث: 1147)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1318
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1320
´تہجد (قیام اللیل) دو دو رکعت پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو دو رکعت پڑھے، جب طلوع فجر کا ڈر ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1320]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تہجد کی نماز آٹھ رکعت سےکم بھی ہوسکتی ہے۔
(2)
صبح صادق ہوجانے سے پہلے وتر پڑھ کر فارغ ہوجانا چاہیے۔
(3)
وتر ایک رکعت بھی جائز ہے۔
(4)
حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین وتردو سلاموں کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔
یعنی دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے۔
پھر ایک رکعت پڑھتے۔ (صحیح البخاري، الوتر، باب ماجاء فی الوتر، حدیث: 991)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1320
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1322
´رات اور دن کی (نفلی) نماز دو دو رکعت ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1322]
اردو حاشہ:
فائدہ:
نفل نماز دو دو رکعت کرکے ادا کرنی چاہیے۔
تاہم چار چار رکعت پڑھنا بھی درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1322
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 437
´رات کی (نفل) نماز دو دو رکعت ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نفلی نماز دو دو رکعت ہے، جب تمہیں نماز فجر کا وقت ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر بنا لو، اور اپنی آخری نماز وتر رکھو۔“ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 437]
اردو حاشہ:
1؎:
رات کی نماز کا دو رکعت ہونا اس کے منافی نہیں کہ دن کی نفل نماز بھی دو دو رکعت ہو،
جبکہ ایک حدیث میں ”رات اور دن کی نماز دودو رکعت“ بھی آیا ہے،
در اصل سوال کے جواب میں کہ ”رات کی نماز کتنی کتنی پڑھی جائے“ ”آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے“ نیز یہ بھی مروی ہے کہ آپ خود رات میں کبھی پانچ رکعتیں ایک سلام سے پڑھتے تھے،
اصل بات یہ ہے کہ نفل نماز عام طورسے دو دو رکعت پڑھنی افضل ہے خاص طور پر رات کی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 437
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 461
´ایک رکعت وتر پڑھنے کا بیان۔`
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے پوچھا: کیا میں فجر کی دو رکعت سنت لمبی پڑھوں؟ تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے، اور وتر ایک رکعت، اور فجر کی دو رکعت سنت پڑھتے (گویا کہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہو رہی ہوتی ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب الوتر/حدیث: 461]
اردو حاشہ:
1؎:
”گویا تکبیر آپ ﷺ کے دونوں کانوں میں ہورہی ہوتی“ کا مطلب ہے کہ فجر کی دونوں سنتیں اتنی سرعت سے ادا فرماتے گویا تکبیر کی آواز آپ کے کانوں میں آ رہی ہے اور آپ تکبیر تحریمہ فوت ہو جانے کے اندیشے سے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے ہوں۔
2؎:
نبی اکرم ﷺ کی وتر کے بارے میں وارد احادیث میں یہ صورت بھی ہے،
اور بغیر سلام کے تین پڑھنے کی صورت بھی مروی ہے،
اس معاملہ میں امت پر وسعت کی گئی ہے،
اس کو تنگی میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا اس ضمن میں زیادہ عمل،
وتر ایک رکعت پڑھنے پر تھا اس کے لیے احادیث و آثار تین،
پانچ اور ان سے زیادہ وتروں کی نسبت کثرت سے مروی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 461
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 597
´رات اور دن کی (نفل) نماز دو دو رکعت کر کے پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔“ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 597]
اردو حاشہ:
1؎:
علامہ البانی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کی تصحیح بڑے بڑے آئمہ سے نقل کی ہے (دیکھئے صحیح ابی داؤد رقم: 1172) آپ کے عمل سے دونوں طرح ثابت ہے،
کبھی دو دو کر کے پڑھتے اور کبھی چار ایک سلام سے،
لیکن اس قولی صحیح حدیث کی بنا پر دن کی بھی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھنا افضل ہے،
ظاہر بات ہے کہ دو سلام میں اوراد و اذکار زیادہ ہیں،
تو افضل کیوں نہیں ہو گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 597
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:641
641-سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”رات کی نماز دو، دو کرکے ادا کی جائے گی جب تمہیں صبح صادق قریب ہونے کا اندیشہ ہو، تو ایک رکعت وتر ادا کر لو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:641]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز وتر ایک رکعت بھی ثابت ہے، ایک وتر کے ثبوت پر بہت زیادہ دلائل ہیں تفصیل کا طالب الدلیل الواضح از شیخ عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کی طرف رجوع کرے۔ نیز اس حدیث سے نماز وتر کے وقت کا تعین بھی ہوتا ہے کہ رات کے تمام حصوں میں اور نماز عشاء کے بعد پڑھنا بھی درست ہے، اور اس کا آخری وقت فجر کی اذان تک ہے۔ [سنن ابي داود: 1418 صححه الالباني الصحيحه: 108]
امام ابن منذر برحمہ اللہ فرماتے ہیں: اجماع ہے کہ عشا ء اور طلوع فجر کے درمیان کا سارا وقت وتر کا وقت ہے۔ (کتاب الاجماع: 76)
رات کی نفلی نمازوں میں سے آخری نماز وتر ہونی چاہیے۔ [صحيح البخاري: 998ـ صحيح مسلم: 751]
جس کو خدشہ ہو کہ میں صبح بیدار نہیں ہوسکتا تو وہ رات کے پہلے حصے میں ہی وتر پڑھ لے، اور جسے یہ توقع ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار ہو جائے گا تو اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصے میں ہی نماز وتر پڑھے، کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ [صحيح مسلم: 755]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 645
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1748
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں سوال کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو رکعتیں ہیں، جب تم میں سے کسی کو صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے، یہ اس کی پڑھی ہوئی (تمام) نماز کو وتر (طاق) بنا دے گی۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1748]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رات کی نماز دو،
دو رکعت پر سلام پھیر کر پڑھنا بہتر ہے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس کا یہی مطلب سمجھا ہے۔
اس لیے احناف کی یہ تاویل کی وہ دوسری رکعت پر بیٹھ کر اٹھتے۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے فہم اور حدیث کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے اور احناف کے ہاں تو فہم راوی کو اس کی حدیث پر بھی ترجیح حاصل ہے۔
اور یہاں فہم راوی کو نظر انداز صرف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ وتر کی ایک رکعت کو تسلیم نہ کرنا پڑے اور یہ تاویل کی جا سکے کہ آخری دوگانہ کے ساتھ دو رکعت کی بجائے ایک رکعت پڑھ کر تین وتر پڑھ لیے جائیں،
حالانکہ یہ تاویل حدیث کے آخری الفاظ کہ یہ رکعت اس کی ساری نماز کو وتر بنا دے گی کے منافی ہے کیونکہ اس سے تو آخری دوگانہ وتر بنا ہے،
پھر اس کو پہلے دوگانوں سے ملانے کی کیا ضرورت ہے؟
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1748
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1751
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں: کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اور میں آپﷺ کے اور پوچھنے والے کے درمیان میں تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! رات کی نماز کیسے ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو، دو رکعتیں، پھر جب تمھیں صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ا یک رکعت پڑھ لو اور وتر کو ا پنی نماز کا آخری حصہ بناؤ۔“ پھر سال کے بعد ایک آدمی نے آپﷺ سے پوچھا، میں رسول اللہ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1751]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وتر آخر میں پڑھنا چاہیے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ رات کو وتر پڑھ کر سو جائے،
یا اٹھ کر وتر پڑھ لے۔
پھر دوگانہ نماز پڑھنا شروع کر دے،
لیکن یہ اس کے لیے ہے جس کا تہجد کی نماز پڑھنا معمول ہو،
رہا وہ انسان جس کا تہجد پڑھنا معمول نہیں ہے کسی دن جاگ آ گئی تو اس نے چاہا کہ چلو جاگ تو آ ہی گئی ہے نماز پڑھ لیں تو ایسا انسان اگرچہ سونے سے پہلے وتر پڑھ چکا ہے وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
اب اس کو آخر میں دوبارہ وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگرچہ بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ پہلے ایک رکعت کو اس نیت سے پڑھ لے کہ سونے سے پہلے پڑھا وتر،
دوگانہ ہو جائے۔
پھر نماز دو،
دو رکعت پڑھتا رہے اورآخر میں ایک وتر پڑھ لے مگر صحابی کا عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت نہیں۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر اس نے نماز کےآخر میں وتر پڑھ لیا ہے تو اب وہ دو رکعت نہیں پڑھ سکتا۔
کیونکہ وتر کے بعد دو رکعت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اگرچہ آپﷺ بیٹھ کر پڑھتے کیونکہ آپﷺ کے ثواب میں بیٹھنے کی صورت میں یعنی کمی واقع نہیں ہوتی اورہمیں اٹھ کر پڑھنا چاہیے کیونکہ ہمارے بیٹھنے سے اجر میں کمی واقع ہوتی ہے۔
نیز یہ فعل کبھی کبھار ہونا چاہیے۔
اس کو معمول نہیں بنانا چاہیے اور بعض حضرات کے نزدیک آپﷺ کی اقتدا اور اتباع کے نقطہ نظر سے بیٹھ کر دو رکعت پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1751
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1761
ابن سیرین کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا: صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا میں ان میں طویل قراءت کر سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو، دو رکعت پڑھتے تھے اور ایک رکعت سے اس کو وتر بناتے، میں نے کہا: میں آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔انھوں نے کہا: تم ایک بوجھل آدمی ہو (اپنی سوچ کو ترجیح دیتے ہو) کیا مجھے موقع نہ دو گے کہ میں تمہارے لئے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1761]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں میں قراءت لمبی نہیں کرتے تھے،
اس لیے تمھیں ان میں لمبی قراءت نہیں کرنی چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1761
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1763
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو رکعت ہے اور جب تم دیکھو کہ صبح آیا چاہتی ہے تو ایک رکعت سے (اپنی نماز کو) وتر کرو۔“ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عرض کیا گیا: ”مَثْنٰى مَثْنٰى“ کا کیا مفہوم ہے؟ انھوں نے کہا: یہ کہ تم ہر دو رکعتوں (کے آخر) میں سلام پھیرو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1763]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مَثْنیٰ مَثْنیٰ کا مفہوم یہی سمجھتےتھے کہ ہر دوگانہ پر سلام پھیرے اور آخر میں الگ ایک رکعت پڑھ لے اس لیے اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہو سکتا کہ آخری دوگانہ پر سلام پھیرے بغیر اس کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کر تین وتر بنالے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1763
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 993
993. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”نماز شب دو دو رکعت ہے۔ جب تو نماز ختم کرنے کا ارادہ کرے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ رکعت تیری سابقہ نماز کو وتر بنا دے گی۔“ قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں: ہم نے جوان ہونے تک لوگوں کو دیکھا کہ وہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ یقینا (تین یا ایک) ہر ایک میں وسعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس میں چنداں حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:993]
حدیث حاشیہ:
یہ قاسم حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پوتے تھے۔
بڑے عالم اور فقیہ تھے۔
ان کے کلام سے اس شخص کی غلطی معلوم ہوگئی جو ایک رکعت وتر کو نا درست جا نتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ صحیح حدیثیں دیکھ کر پھر کوئی مسلمان یہ کیسے کہے گا کہ ایک رکعت وتر نا درست ہے۔
اس روایت سے گو عبد اللہ بن عمر کا تین رکعتیں وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفیہ کے لیے کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ ہمیشہ وتر کی تین ہی رکعتیں پڑھتے۔
علاوہ بھی اس کے دو سلام سے تین رکعتیں وتر کی ثابت ہیں اور حنفیہ ایک سلام سے کہتے ہیں (مولانا وحیدی)
یہی عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں جن سے صحیح مسلم شریف ص 257 میں صراحتاً ایک رکعت وتر ثابت ہے۔
عن عبد اللہ بن عمر ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الوتررکعة من آخر اللیل رواہ مسلم۔
حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔
دوسری حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔
عن أیوب رضي اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الوتر حق علی کل مسلم ومن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل۔
(رواہ ابو داؤد والنسائی او ابن ماجہ)
یعنی حضرت ابوایوب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وتر کی نماز حق ہے جو ہر مسلم کے لیے ضروری ہے اور جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے اور جوچاہے تین رکعات اور جو چاہے ایک رکعت وتر ادا کر لے۔
اور بھی اس قسم کی کئی روایات مختلفہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔
اسی لیے حضرت مولانا عبید اللہ شیخ الحدیث بذیل حدیث حضرت عائشہ صدیقہ لفظ:
ویوتر بواحدة۔
(آپ ایک رکعت وتر پڑھتے)
فرماتے ہیں:
فیه أن أقل الوتر رکعة وأن الرکعة الفردة صلوة صحیحة وھو مذھب الأئمة الثلاثه وھو الحق وقال أبو حنیفة لا یصح الإیتار بواحدة فلا تکون الرکعة الواحدة صلوة قط قال النووي والأحادیث الصحیحة ترد علیه۔
(مرعاة ج: 2ص: 158)
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور یہ کہ ایک رکعت پڑھنا بھی نماز صحیح ہے، ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے (ائمہ ثلاثہ سے حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ مراد ہیں)
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں، کیونکہ ایک رکعت نماز ہی نہیں ہوتی۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے حضرت امام کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔
وتر کے واجب فرض سنت ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے، اس بارے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
والحق أن الوتر سنة ھو أوکد السنن بینه علی وابن عمر وعبادة ابن الصامت رضي اللہ عنهم۔
اور حق یہ ہے کہ نماز وتر سنت ہے اور وہ سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہے۔
حضرت علی،حضرت عبد اللہ عمر، حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی بیان فرمایا ہے۔
(حجة البالغة، ج: 2ص: 24)
وتر تین رکعت پڑھنے کی صورت میں پہلی رکعت میں سورۃ ﴿سبح اسم ربك الأعلی﴾ اور دوسری میں ﴿قل یأیھا الکفرون﴾ اور تیسری میں ﴿قل ھو اللہ أحد﴾ پڑھنا مسنون ہے۔
وتر کے بعد بآواز بلند تین مرتبہ سبحان الملك القدوس کا لفظ ادا کرنا مسنون ہے۔
ایک رکعت وتر کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت نواب صدیق حسن صاحب ؒ کی مشہور کتاب ھدایة السائل إلی أدلة المسائل مطبوعہ بھوپال، ص: 255 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 993
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1137
1137. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نماز شب کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کیسے ادا کی جائے؟ آپ نے فرمایا: ”نمازِ شب دو دو رکعتیں ہے، جب صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک وتر پڑھ لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1137]
حدیث حاشیہ:
رات کی نماز کی کیفیت بتلائی کہ وہ دو دو رکعت پڑھی جائے۔
اس طرح آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر اسے طاق بنا لیا جائے۔
اسی بنا پر رات کی نماز کو جس کا نام غیر رمضان میں تہجد ہے اور رمضان میں تراویح، گیارہ رکعت پڑھنا مسنون ہے جس میں آٹھ رکعتیں دو دو رکعت کے سلام سے پڑھی جائیں گی، پھرآخر میں تین رکعات وتر ہوں گے یا دس رکعات ادا کر کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا جائے اور اگر فجر قریب ہو تو پھر جس قدر بھی رکعتیں پڑھی جا چکی ہیں، ان پر اکتفاکرتے ہوئے ایک رکعت وتر پڑھ کر ان کو طاق بنا لیا جائے۔
اس حدیث سے صاف ایک رکعت وتر ثابت ہے۔
مگر حنفی حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔
اس حدیث کے ذیل علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
وھو حجة للشافعیة علی جواز الإیتار برکعة واحدة قال النووي وھو مذھب الجمھور وقال أبو حنیفة لا یصح بواحدة ولا تکون الرکعة الواحدة صلوة قط والأحادیث الصحیحة ترد علیه۔
یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر کا صحیح ہونا ثابت ہو رہاہے اورجمہور کا یہی مذہب ہے۔
اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں ہی ہے حالانکہ احادیث صحیحہ ان کے اس خیال کی تردید کررہی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1137
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 995
995. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:995]
حدیث حاشیہ:
اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔
طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔
حضوراکرم ﷺ کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔
ابوبکر ؒ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاء کے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر ؓ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔
اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ الْإِيتَارِ بِرَكْعَةٍ وَاحِدَةٍ عِنْدَ مَخَافَةِ هُجُومِ الصُّبْحِ، وَسَيَأْتِي مَا يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ تَقْيِيدٍ، وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ الْجُمْهُورُ. قَالَ الْعِرَاقِيُّ:
وَمِمَّنْ كَانَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ الْخُلَفَاءُ الْأَرْبَعَةُ الخ۔
یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ (حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم)
اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔
حنفیہ کے دلائل! علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے:
عن محمد بن کعب أن النبي صلی اللہ علیه وسلم نھی عن البتیراء۔
یعنى رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا۔
لفظ (بتیراء)
دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔
عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔
علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت ﷺ سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں، مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے، بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بتیراء تین رکعت وتر بھی بتیراء (یعنی دم کٹی)
نماز ہے۔
فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔
حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ قول ہے:
إنه قال ما أجزأت رکعة قط۔
یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔
امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔
آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔
اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔
ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔
جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز (وتر)
ایک ایک رکعت ادا کی (نیل الأوطار)
بڑی مشکل! یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کا ذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 995
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:472
472. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ ایک دفعہ منبر پر تشریف فر تھے کہ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا: رات کی نماز کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "دو دو رکعت پڑھو، پھر جب (کسی کو) صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لے، وہ سابقہ ساری نماز کو وتر کر دے گی۔" حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے: رات کی نماز کے آخر میں وتر پڑھا کرو، نبی ﷺ نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:472]
حدیث حاشیہ:
1۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کے ذکر اور حصول علم کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا جائز ہے۔
ان تینوں احادیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر مسجد ہو کر آپ کی مجلس سے استفادہ کرنا مذکورہے۔
اسی طرح کسی عالم سے استفادہ، چونکہ اس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے، لہذا امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہو گیا۔
چونکہ اس قسم کے استفادہ چونکہ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عنوان ثابت ہو گیا۔
(شرح ابن بطال: 120/2)
2۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مسجد میں حلقہ بنانے پر اظہار ناگواری فرمایا تھا۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وقت حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
آپ نے فرمایا ”کیا بات ہے میں تمھیں الگ الگ ٹکڑوں میں دیکھ رہا ہوں؟“ اس روایت کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے لیکن امام بخاری ؒ کی پیش کردہ مذکورہ روایات سے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے کا جواز ثابت ہے۔
اور جن روایات سے اظہار ناگواری معلوم ہوتا ہے وہ ایسے حلقے ہیں جو بے ضرورت اور بلا فائدہ ہوں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حلقوں کو انتشار پسندی کی علامت قراردیا ہے۔
ایک حلقہ بنانے سے دلوں کا اتفاق اور ان کا متحدہ ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن حلقہ بنا کر بیٹھنے میں اگر کوئی مصلحت ہو جیسے تعلیم کے لیے دائرے کی صورت میں بیٹھنا تو اس کی اجازت ہے۔
(فتح الباري: 728/1)
3۔
پہلی دونوں احادیث سے مسجد میں بیٹھنے کا جواز ثابت ہے جن میں آپ کے خطبہ دینے کا ذکر ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیٹھ کر سننا ثابت ہے اور تیسری روایت میں عنوان کے دوسرے جز یعنی حلقہ بنا کر بیٹھنے کاذکر ہے۔
پہلی اور دوسری روایت سے بھی امام بخاری ؒ کا مدعا بایں طور ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کے ارشادات سننے کے لیے آپ کے چاروں طرف سامنے کی سمت میں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، کیونکہ وہ ہر طرف سے آپ کی طرف اپنا رخ کیے ہوئے بیٹھے تھے۔
گویا بیٹھنے کا ثبوت تو صراحت کے ساتھ ہے اور حلقہ بنا کر بیٹھنے کا ثبوت دلالت سے نکلتا ہے، تیسری روایت میں تو حلقہ بنا کر بیٹھنے کی صراحت ہے۔
چونکہ آپ کے پاس تین شخص آئے ایک واپس چلا گیا اور بقیہ دو آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے جن میں سے ایک نے دیکھا کہ آپ کے پاس حلقے میں گنجائش ہے تو وہ حلقے میں آکر بیٹھ گیا۔
دوسرے کو حیا دامن گیر ہوئی تو وہ مجلس کے آخر میں بیٹھ گیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دائرہ اور حلقہ بنا کر بیٹھتے تھے نیز تعلیم وغیرہ کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا بھی ثابت ہوا۔
وھوالمقصود۔
4۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز وتر ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وتر ہر مسلمان پر حق ہے لہٰذا جو شخص پانچ رکعات پڑھنا چاہے تو پانچ رکعات وتر پڑھے جو تین پڑھنا چاہے تو وہ تین پڑھے اور جو ایک رکعت پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔
“ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1422)
حضرت ابن عباس ؓ سے کہا گیا کہ امیر المومنین حضرت معاویہ ؓ نے ایک ہی وتر پڑھا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا:
وہ صحابی ہیں، ایک روایت میں ہے وہ فقیہ ہیں، یعنی انھوں نے درست کیا ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3764۔
3765)
نماز وتر کے متعلق تفصیلی بحث کتاب الوتر حدیث 990میں آئے گی۔
وہاں ہم ان کی تعداد اور پڑھنے کے متعلق طریق کار کو بیان کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 472
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:473
473. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ (اس وقت) آپ خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے عرض کیا: رات کی نماز کس طرح ادا کی جائے؟ آپ نے فرمایا:”دو دو رکعت۔ پھر جب تمہیں طلوع فجر کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لو۔ وہ تمہاری پڑھی ہوئی سابقہ نماز کو طاق عدد میں تبدیل کر دے گی۔“ ولید بن کثیر اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی ﷺ کو آواز دی جبکہ آپ مسجد میں تشریف فر تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:473]
حدیث حاشیہ:
1۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کے ذکر اور حصول علم کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا جائز ہے۔
ان تینوں احادیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر مسجد ہو کر آپ کی مجلس سے استفادہ کرنا مذکورہے۔
اسی طرح کسی عالم سے استفادہ، چونکہ اس کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے، لہذا امام بخاری ؒ کا عنوان ثابت ہو گیا۔
چونکہ اس قسم کے استفادہ چونکہ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھنے ہی سے ہوا کرتا ہے لہٰذا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا عنوان ثابت ہو گیا۔
(شرح ابن بطال: 120/2)
2۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مسجد میں حلقہ بنانے پر اظہار ناگواری فرمایا تھا۔
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس وقت حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
آپ نے فرمایا ”کیا بات ہے میں تمھیں الگ الگ ٹکڑوں میں دیکھ رہا ہوں؟“ اس روایت کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے لیکن امام بخاری ؒ کی پیش کردہ مذکورہ روایات سے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے کا جواز ثابت ہے۔
اور جن روایات سے اظہار ناگواری معلوم ہوتا ہے وہ ایسے حلقے ہیں جو بے ضرورت اور بلا فائدہ ہوں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے حلقوں کو انتشار پسندی کی علامت قراردیا ہے۔
ایک حلقہ بنانے سے دلوں کا اتفاق اور ان کا متحدہ ہونا ثابت ہوتا ہے، لیکن حلقہ بنا کر بیٹھنے میں اگر کوئی مصلحت ہو جیسے تعلیم کے لیے دائرے کی صورت میں بیٹھنا تو اس کی اجازت ہے۔
(فتح الباري: 728/1)
3۔
پہلی دونوں احادیث سے مسجد میں بیٹھنے کا جواز ثابت ہے جن میں آپ کے خطبہ دینے کا ذکر ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیٹھ کر سننا ثابت ہے اور تیسری روایت میں عنوان کے دوسرے جز یعنی حلقہ بنا کر بیٹھنے کاذکر ہے۔
پہلی اور دوسری روایت سے بھی امام بخاری ؒ کا مدعا بایں طور ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دے رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کے ارشادات سننے کے لیے آپ کے چاروں طرف سامنے کی سمت میں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، کیونکہ وہ ہر طرف سے آپ کی طرف اپنا رخ کیے ہوئے بیٹھے تھے۔
گویا بیٹھنے کا ثبوت تو صراحت کے ساتھ ہے اور حلقہ بنا کر بیٹھنے کا ثبوت دلالت سے نکلتا ہے، تیسری روایت میں تو حلقہ بنا کر بیٹھنے کی صراحت ہے۔
چونکہ آپ کے پاس تین شخص آئے ایک واپس چلا گیا اور بقیہ دو آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے جن میں سے ایک نے دیکھا کہ آپ کے پاس حلقے میں گنجائش ہے تو وہ حلقے میں آکر بیٹھ گیا۔
دوسرے کو حیا دامن گیر ہوئی تو وہ مجلس کے آخر میں بیٹھ گیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین دائرہ اور حلقہ بنا کر بیٹھتے تھے نیز تعلیم وغیرہ کے لیے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا بھی ثابت ہوا۔
وھوالمقصود۔
4۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز وتر ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وتر ہر مسلمان پر حق ہے لہٰذا جو شخص پانچ رکعات پڑھنا چاہے تو پانچ رکعات وتر پڑھے جو تین پڑھنا چاہے تو وہ تین پڑھے اور جو ایک رکعت پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔
“ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1422)
حضرت ابن عباس ؓ سے کہا گیا کہ امیر المومنین حضرت معاویہ ؓ نے ایک ہی وتر پڑھا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا:
وہ صحابی ہیں، ایک روایت میں ہے وہ فقیہ ہیں، یعنی انھوں نے درست کیا ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم حدیث: 3764۔
3765)
نماز وتر کے متعلق تفصیلی بحث کتاب الوتر حدیث 990میں آئے گی۔
وہاں ہم ان کی تعداد اور پڑھنے کے متعلق طریق کار کو بیان کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 473
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:993
993. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”نماز شب دو دو رکعت ہے۔ جب تو نماز ختم کرنے کا ارادہ کرے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ رکعت تیری سابقہ نماز کو وتر بنا دے گی۔“ قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں: ہم نے جوان ہونے تک لوگوں کو دیکھا کہ وہ تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ یقینا (تین یا ایک) ہر ایک میں وسعت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس میں چنداں حرج نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:993]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے مروی حدیث کا ایک طریق پہلے بیان کیا تھا کہ نماز شب دو دو رکعت ہے۔
اگر اضطراری حالت ہو کہ اسے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہو جائے تو ایک رکعت پڑھ کر سابقہ نماز کو وتر بنا لے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اضطراری حالت کے علاوہ بھی اپنے ارادہ و اختیار سے سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت پڑھ کر وتر بنایا جا سکتا ہے۔
ثابت ہوا کہ اضطراری و اختیاری ہر دو صورتوں میں سابقہ ادا شدہ نماز کو ایک رکعت کے ذریعے وتر بنایا جا سکتا ہے۔
اور صرف ایک وتر پڑھنا بھی جائز ہے بایں طور کہ اس سے قبل کوئی دو دو رکعت ادا نہ کی گئی ہوں۔
(2)
اس روایت کے آخر میں حضرت قاسم بن محمد کا ارشاد ذکر ہوا ہے، یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پوتے ہیں۔
بڑے عالم اور فقیہ تھے۔
ان کے بیان کردہ موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کے سلسلے میں ان کے ہاں تنگی نہیں ہے، یعنی تین اور ایک وتر پڑھا جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا جائز نہیں بلکہ منسوخ ہے، حالانکہ نماز وتر کی ایک رکعت پڑھنا صحیح ہے۔
امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
”وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1758(752)
اس کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک وتر پڑھتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1718(738)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 993
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:995
995. حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:995]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں اوقات وتر کو بیان کیا گیا ہے۔
وتر کا وقت عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے جیسا کہ حضرت خارجہ بن حذافہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”وتر کا وقت نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1168)
ہاں! جسے اندیشہ ہو کہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا اسے چاہیے کہ نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سوئے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو نبی ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کیونکہ وہ رات گئے تک تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے تھے۔
لیکن اگر کسی کو یقین ہو کہ وہ آخر رات میں بیدار ہو سکتا ہے تو وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے کیونکہ یہ افضل ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو وہ وتر پڑھ کر نیند کرے اور جسے اعتماد ہو کہ رات کے قیام کے لیے بیدار ہو سکے گا تو رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے اور یہ افضل ہے۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1765 (755) (2)
حدیث ابن عمر ؓ میں ہے کہ وتر رات کے کسی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، البتہ اسے صبح کی سنتوں سے پہلے پڑھنا چاہیے۔
مزید وضاحت آئندہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 995
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1137
1137. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نماز شب کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کیسے ادا کی جائے؟ آپ نے فرمایا: ”نمازِ شب دو دو رکعتیں ہے، جب صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک وتر پڑھ لو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1137]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں نماز شب پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
اسے دو دو رکعت کر کے پڑھا جائے اور آخر میں ایک وتر ادا کیا جائے۔
امت کے حق میں یہی افضل ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سائل کے جواب میں یہ ہدایت جاری فرمائی ہے، البتہ آپ نے نماز شب کو فصل اور وصل دونوں طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شب چار رکعت پڑھتے۔
اس کے خوبصورت اور طویل ہونے کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔
پھر چار پڑھتے جو بہت خوبصورت اور لمبی ہوتیں۔
اس کے بعد تین رکعت پڑھتے۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1147)
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1137