عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز فجر سے پہلے دو رکعت پڑھ رہا تھا، اس وقت آپ فرض پڑھ رہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”اپنی دونوں نماز میں سے کس نماز کا تم نے اعتبار کیا؟“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ جو تم نے اکیلے پڑھی یا وہ جو امام کے ساتھ پڑھی، رسول اکرم ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جب امام نماز کے لئے کھڑا ہو، تو اب فرض نماز کے علاوہ دوسری نماز نہ پڑھنی چاہئے، چاہے وہ فجر کی سنت ہی کیوں نہ ہو۔
It was narrated from ‘Abdullah bin Sarjis that the Messenger of Allah (ﷺ) saw a man performing the two Rak’ah before the morning prayer while he himself was performing prayer. When he had finished praying he said to him:
“Which of your two prayers did you intend to be counted (i.e., accepted)?”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1152
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس عبارت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تو نے کس نماز کواپنا مقصد قرار دیا ہے۔ یعنی کیا تیرا مقصود وہ نماز تھی جو اکیلے پڑھی۔ یا وہ جس کی جماعت ہورہی تھی۔ ؟ چونکہ گھر سے آتے وقت اصل مقصد فرض نماز کی ادایئگی ہوتا ہے۔ تو اس پردوسری کو ترجیح دینا درست نہیں۔ سنتیں تو گھر میں بھی ادا کی جا سکتی ہیں۔ مسجد میں آنے کا اصل مقصد وہ نہیں ہوتیں۔
(2) اس حدیث سے واضح طور پرثابت ہوگیا کہ جماعت کھڑی ہوتو فجر کی سنتیں پڑھنا درست نہیں بلکہ جماعت کے ساتھ شامل ہونا ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1152
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 869
´امام (فرض) نماز میں ہو تو سنتیں پڑھنے والے کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں تھے، اس نے دو رکعت سنت پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پوری کر چکے تو فرمایا: ”اے فلاں! ان دونوں میں سے تمہاری نماز کون سی تھی، جو تم نے ہمارے ساتھ پڑھی ہے؟ یا جو خود سے پڑھی ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 869]
869 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث کا مقصد بھی یہی ہے کہ فجر کی نماز کے دوران میں سنتیں نہیں پڑھی جا سکتیں، البتہ احناف کے نزدیک مسجد سے باہر پڑھی جا سکتی ہیں۔ یہ متقدمین کا مسلک تھا، بعد والوں نے تو مسجد کے اندر جماعت والی صف سے پچھلی صف میں کھڑے ہو کر پڑھنے کی اجازت دے دی ہے، حالانکہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ مذکورہ شخص نے مسجد کے ایک طرف نماز پڑھی تھی۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 712] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روکا۔ ایسی صریح روایات کی موجودگی میں مسجد کے اندر جماعت کی موجودگی میں سنتیں پڑھنے کی اجازت دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ مسجد سے باہربھی اقامت کے بعد سنتیں پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ظاہر الفاظ اسی کی تائید کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 869
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1265
´امام فجر پڑھا رہا ہو اور آدمی نے سنت نہ پڑھی ہو تو اس وقت نہ پڑھے۔` عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھا رہے تھے تو اس نے دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا، جب آپ نماز سے فارغ ہو کر پلٹے تو فرمایا: ”اے فلاں! تمہاری کون سی نماز تھی؟ آیا وہ جو تو نے تنہا پڑھی یا وہ جو ہمارے ساتھ پڑھی ۱؎؟۔“[سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1265]
1265. اردو حاشیہ: جماعت ہو رہی ہو تو کسی کے لیے سنت یا نفل پڑھنا جائز نہیں ہے، خواہ یقین ہو کہ سنتوں کے بعد پہلی رکعت پا لوں گا۔ یہی حکم فجر کی سنتوں کا ہے۔ جماعت کے دوران میں، باہر صحن میں یا کسی کونے میں فجر کی سنتیں پڑھنی جائز نہیں، جیسا کہ اکثر مساجد میں یہ معمول ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1265
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1651
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ایک آدمی مسجد میں آیا جبکہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھا رہے تھے تو اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ”اے شخص تو نے دو نمازوں میں کون سی نماز کو فرض قرار دیا ہے؟ کیا اس نماز کو جو تو نے اکیلے پڑھی ہے یا اپنی اس نماز کو جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1651]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس باب میں آنے والی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مؤذن نماز کے لیے اقامت شروع کر دے تو اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی جا سکتی سوائے اس نماز کے جو امام کی اقتدا میں ادا کرنی ہے اقامت کے شروع ہونے کے بعد نفل یا سنت کا آغاز کرنا جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ اور جو نماز وہ پہلے پڑھ رہا ہے تو اگر وہ آخری رکعت کے رکوع سے گزر چکا ہے تو اس کو مکمل کر لے، وگرنہ چھوڑ دے کیونکہ عبد اللہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح کی سنتیں پڑھنے والا نماز شروع کر چکا تھا پھر اقامت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کیا تم صبح کی چار رکعات پڑھو گے؟ تو گویا اس نے اقامت کے بعد ابھی دونوں رکعتیں پڑھنی تھیں لیکن احناف کے نزدیک چونکہ صبح کی سنتوں کی بہت تاکید کی گئی ہے اس لیے اگر وہ دوسری رکعت میں امام کے ساتھ شامل ہو سکتا ہو تو وہ اقامت کے بعد فجر کی سنتیں پڑھ سکتا ہے لیکن عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں صراحتاً اقامت کے بعد صبح کی سنتیں مسجد میں پڑھنے کی ممانعت موجود ہے اس لیے علامہ سعیدی لکھتے ہیں۔ بظاہر اس حدیث سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تائید ہوتی ہے کیونکہ فجر کی سنتوں کی تاکید بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اقامت فجر کے وقت سنتیں پڑھنے پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس لیے اتباع حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ اقامت فجر کے وقت سنت پڑھنا شروع نہ کرے (کیونکہ جن کے حکم سے سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ خود منع فرما رہے ہیں) اور اگر سنتیں پہلے سے شروع کی ہوئی ہیں تو جلد ازجلد ختم کر کے جماعت میں شامل ہو جائےعلامہ دشتانی لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کو مارتے تھے جو اقامت فجر کے وقت سنتیں پڑھتا تھا کیونکہ سرکار نے اس سے منع کیا ہے۔ (صحیح مسلم ج2ص: 421) مزید لکھتے ہیں: یہ انتہائی غلط طریقہ مروج ہے کہ مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور لوگ جماعت کی صفوں سے متصل کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ امام بآواز بلند قرآن پڑھ رہا ہے جس کا سننا فرض ہے اور سنتوں میں مشغول شخص اس فرض کو ترک کر رہا ہے دوسری خرابی یہ ہے کہ سنتوں میں مشغول شخص بظاہر فرض اور جماعت سے اعراض کر رہا ہے اور تیسری خرابی یہ ہے کہ اس کا یہ عمل اس باب کی احادیث کی مخالفت کو مستلزم ہے۔ (ج2ص: 421)