● صحيح البخاري | 1101 | عبد الله بن عمر | صحبت النبي فلم أره يسبح في السفر وقال الله جل ذكره لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
● صحيح البخاري | 1102 | عبد الله بن عمر | لا يزيد في السفر على ركعتين |
● صحيح البخاري | 1082 | عبد الله بن عمر | صليت مع النبي بمنى ركعتين وأبي بكر وعمر ومع عثمان صدرا من إمارته ثم أتمها |
● صحيح مسلم | 1580 | عبد الله بن عمر | في السفر فما رأيته يسبح ولو كنت مسبحا لأتممت وقد قال الله لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
● صحيح مسلم | 1592 | عبد الله بن عمر | صلى رسول الله بمنى ركعتين وأبو بكر بعده وعمر بعد أبي بكر وعثمان صدرا من خلافته ثم إن عثمان صلى بعد أربعا فكان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى أربعا وإذا صلاها وحده صلى ركعتين |
● صحيح مسلم | 1590 | عبد الله بن عمر | صلى صلاة المسافر بمنى وغيره ركعتين |
● صحيح مسلم | 1594 | عبد الله بن عمر | صلى النبي بمنى صلاة المسافر و أبو بكر وعمر وعثمان ثماني سنين قال حفص وكان ابن عمر يصلي بمنى ركعتين ثم يأتي فراشه فقلت أي عم لو صليت بعدها ركعتين قال لو فعلت لأتممت الصلاة |
● صحيح مسلم | 1579 | عبد الله بن عمر | في السفر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله وصحبت أبا بكر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله وصحبت عمر فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين حتى قبضه الله وقد قال الله لقد كان لكم في رسول الله |
● جامع الترمذي | 552 | عبد الله بن عمر | صليت مع النبي في الحضر والسفر فصليت معه في الحضر الظهر أربعا وبعدها ركعتين وصليت معه في السفر الظهر ركعتين وبعدها ركعتين والعصر ركعتين ولم يصل بعدها شيئا والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلاث ركعات لا تنقص في الحضر ولا في السفر هي وتر النها |
● جامع الترمذي | 551 | عبد الله بن عمر | صليت مع النبي الظهر في السفر ركعتين وبعدها ركعتين |
● جامع الترمذي | 544 | عبد الله بن عمر | يصلون الظهر والعصر ركعتين ركعتين لا يصلون قبلها ولا بعدها |
● سنن النسائى الصغرى | 1452 | عبد الله بن عمر | صلى رسول الله بمنى ركعتين |
● سنن النسائى الصغرى | 1451 | عبد الله بن عمر | صليت مع النبي بمنى ركعتين ومع أبي بكر ركعتين ومع عمر ركعتين |
● سنن النسائى الصغرى | 1458 | عبد الله بن عمر | لا يزيد في السفر على ركعتين لا يصلي قبلها ولا بعدها |
● سنن النسائى الصغرى | 1459 | عبد الله بن عمر | لا يزيد في السفر على الركعتين |
● سنن النسائى الصغرى | 458 | عبد الله بن عمر | الله أمرنا أن نصلي ركعتين في السفر |
● سنن ابن ماجه | 1193 | عبد الله بن عمر | يصلي في السفر ركعتين لا يزيد عليهما وكان يتهجد من الليل قلت وكان يوتر قال نعم |
● سنن ابن ماجه | 1071 | عبد الله بن عمر | لم يزد على ركعتين في السفر حتى قبضه الله ثم صحبت أبا بكر فلم يزد على ركعتين ثم صحبت عمر فلم يزد على ركعتين ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين حتى قبضهم الله والله يقول لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة |
● سنن ابن ماجه | 1067 | عبد الله بن عمر | إذا خرج من هذه المدينة لم يزد على ركعتين حتى يرجع إليها |
● المعجم الصغير للطبراني | 313 | عبد الله بن عمر | عن صلاة السفر ، فقال : ركعتان نزلتا من السماء ، فإن شئتم فردوها |
● المعجم الصغير للطبراني | 278 | عبد الله بن عمر | صليت مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فى السفر ركعتين ، ومع أبى بكر ركعتين ، ومع عمر ركعتين ، ثم تفرقت بكم السبل فوالله لوددت أن أحظى من أربع ركعات ركعتين متقبلتين |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1067
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ حدیث میں قصر نماز کی مسافت کی بابت اجمال ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تین میل یا تین فرسخ کا سفر کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 691)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں کہ مسافت قصر کے بارے میں صحیح ترین اور صریح ترین روایت یہی ہے۔ (فتح الباري، 567/2)
تاہم اس مسئلہ کی بابت تمام روایات اوراقوال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز قصر کرنے کےلئے مذکورہ حدیث میں جو مسافت بیان ہوئی ہے وہ محض احتیاط کی بنا پر ہے۔
کہ آدمی اگر تین فرسخ یعنی 23، 22 کلومیٹر شہر کی حدود سے باہر جائے تو وہ نماز قصر ادا کرسکتا ہے۔
کیونکہ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ تین میل یا تین فرسخ سے کم سفر کرتے تو اس میں قصر نہ کرتے اور نہ ہی شریعت میں مسافت قصر کی کوئی تحدید کی گئی ہے۔
بلکہ عرف میں اگر دو یا تین میل کی مسافت کو بھی سفر کہا جاتا ہو تو شرعاً اس میں بھی قصر جائز ہوگی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اسی مسافت قصر کی بابت فرماتے ہیں۔
کہ نماز قصر کی ابتداء کے بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس کےلئے کسی مسافت کی قید نہیں بلکہ شہر کی حدود پار کرنے سے ہی سے قصر شروع ہوجاتی ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (فتح الباری 567/2)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1067
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 458
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ آپ نماز (بغیر خوف کے) کیسے قصر کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: «فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم» ”اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ نماز قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں“ (النساء: ۱۰۱) تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت نماز پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 458]
458 ۔ اردو حاشیہ:
➊اعتراض یہ تھا کہ قرآن مجید میں قصر صلاۃ کے لیے خوف کی قید مذکور ہے جب کہ یہ لوگ بغیر خوف کے قصر کر رہے ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصولی جواب دیا کہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اصل ہے۔ قرآن مجید کا مطلب بھی وہی معتبر ہے جو آپ ارشاد فرمائیں کیونکہ قرآن مجید بھی تو آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ آپ ہی اس کا صحیح مفہوم جانتے ہیں۔ آپ نے بارہا سفر میں قصر کی، حالانکہ کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ حجۃ الوداع میں بھی قصر کی جب کہ آپ کی حکو مت قائم ہو چکی تھی۔
➋حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اصولی جواب کے علاوہ بھی جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً 1۔ جب قصر کی آیت اتری، اس وقت خوف بھی تھا، لہٰذا آیت میں واقعہ کی مناسبت سے خوف کا ذکر کر دیا گیا ورنہ یہ شرط مقصود نہ تھی، سفر ہی شرط تھا۔ 2۔ قرآن مجید میں صلاۃ خوف ہی کا ذکر ہے۔ صلاۃ سفر کا ذکر صرف احادیث میں ہے۔ قرآن مجید میں سفر کی نماز کا ذکر ہی نہیں۔ 3۔ (ان خفتم۔۔۔ الخ) سے صلاۃ خوف کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صلاۃ سفر مذکور ہے، گویا (ان خفتم) کا تعلق ماقبل سے نہیں مابعد سے ہے، دونوں الگ الگ جملے ہیں۔
➌ امرنا سے مراد وجوبی حکم نہیں بلکہ استحبابی حکم مراد ہے جیسا کہ پیچھے گزرا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 458
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1452
´منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں دو رکعت پڑھی، اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم نے بھی وہاں دو ہی رکعت پڑھی، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1452]
1452۔ اردو حاشیہ:
➊ بعد میں کسی وجہ سے اجتہادی طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں شروع کر دی تھیں۔ اور محدثین نے اس کی متعدد وجوہ بیان فرمائی ہیں جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ اور اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بابت بھی مروی ہے کہ وہ بھی دوران سفر میں پوری نماز پڑھ لیتی تھیں۔ ان احادیث کے پیش نظر علمائے محققین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انسان کواللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے، نیز فرمان نبوی بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ بنابریں ہمارے نزدیک افضل یہ ہے کہ دوران سفر نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے اور پوری نماز پڑھے تو اس کی بھی گنجائش ہے اسے بدعت وغیرہ نہیں کہنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
➋ مندرجہ بالا تمام روایات میں دو رکعت سے مراد صرف وہ نماز ہے جو اصل رباعی، یعنی چار رکعت والی ہے، ورنہ مغرب ہر حال میں تین رکعت ہے اور فجر ہر حال میں دو رکعت۔ اور یہ متفقہ بات ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1452
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1458
´سفر میں سنت (نفل) نہ پڑھنے کا بیان۔`
وبرہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم سفر میں دو رکعت پر اضافہ نہیں کرتے تھے، نہ تو اس سے پہلے نماز پڑھتے اور نہ ہی اس کے بعد، تو ان سے کہا گیا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1458]
1458۔ اردو حاشیہ: فرض نمازوں کی تمام سنن رواتب کے سوا سفر میں نفل پڑھنا قطعاً منع نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے مطلق نوافل پڑھنا ثابت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سفر میں سواری پر نفل نماز (وتر وغیرہ) پڑھ لیا کرتے تھے۔ اس میں وہ استقبال قبلہ (قبلہ رخ ہونے) کا بھی سوائے وقتِ آغاز کے، کوئی اہتمام نہیں کرتے تھے، بلکہ سواری کا رخ اور منہ جس طرف بھی ہوتا اسی طرف نماز پڑھ لیتے۔ اس طرح صرف نوافل میں کرتے، فرض نماز سواری سے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر پڑھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کراام رضی اللہ عنھم کا سفر میں یہ عام معمول تھا۔ صحیحین کی احادیث میں اس کی مکمل صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1100-1193، و صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین……، حدیث: 702-700) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی سنتوں کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صبح کی سنتوں کا خاص اہتمام و التزام فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ عفیفہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر صبح کی سنتوں کا التزام و اہتمام اور ان پر محافظت و مداومت فرماتے تھے، اس قدر کسی اور نفل نماز پر نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1129) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی سنتوں کی بابت فرمایا ہے: ”فجر کی دو رکعت (سنتیں) دنیا و مافیہا، یعنی جو کچھ دنیا میں ہے، اس سب سے بہتر ہیں۔“ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: 725) نیز یہ سنتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ازحد محبوب اور پیاری تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں کا کس قدر التزام فرماتے تھے؟ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے واپس آتے ہوئے رات کے پچھلے پہر سو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی بھی طلوع آفتاب سے پہلے نہ اٹھ سکا تو آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا: ”اپنی سواریاں لے کر اس وادی سے نکل چلو، اس جگہ شیطان رہتا ہے۔“ پھر آپ نے وضو کیا اس کے بعد صبح کی دو سنتیں پڑھیں اور پھر صبح کے فرض باجماعت ادا کیے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 680) البتہ جو نماز قصر کی جاتی ہے، یعنی ظہر، عصر اور عشاء، ان میں آپ سے سنتیں پڑھنے کا ذکر نہیں ملتا، لہٰذا قصر کی جائے تو سنتیں نہ پڑھی جائیں کیونکہ قصر تو تخفیف کے لیے ہے۔ سنتیں پڑھنے سے تخفیف ختم ہو جاتی ہے۔ مغرب و عشاء کو جمع کرتے وقت مغرب کی سنتیں نہیں پڑھی جائیں گی۔ سفر کے دوران میں تہجد وغیرہ بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ دلائل کے عموم سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1458
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1459
´سفر میں سنت (نفل) نہ پڑھنے کا بیان۔`
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر میں تھا تو انہوں نے ظہر اور عصر کی نمازیں دو دو رکعت پڑھیں، پھر اپنے خیمے کی طرف لوٹنے لگے، تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے پوچھا: یہ لوگ (اب) کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: یہ لوگ سنت پڑھ رہے ہیں، تو انہوں نے کہا: اگر میں اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز پڑھنے والا ہوتا تو میں فرض ہی کو پورا کرتا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، ابوبکر کے ساتھ رہا یہاں تک کہ ان کا انتقال ہو گیا، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی رہا یہ سب لوگ اسی طرح کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1459]
1459۔ اردو حاشیہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سنتیں پڑھنے پر انکار کیا کہ اگر سنتیں ہی پڑھنی ہیں تو اس کی بجائے بہتر تھا کہ فرض چار پڑھ لیے جاتے کیونکہ فرض نوافل سے زیادہ ثواب رکھتے ہیں جب کہ شریعت کا مقصد مسافر سے تخفیف کرنا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1459
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1071
´سفر میں نوافل پڑھنے کا بیان۔`
حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سفر میں تھے، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہم ان کے ساتھ لوٹے، انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: سنت پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا: اگر مجھے نفلی نماز (سنت) پڑھنی ہوتی تو میں پوری نماز پڑھتا، میرے بھتیجے! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، انہوں نے بھی دو رکعت س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1071]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کا عمل یہی ہے کہ سفر کے دوران میں فرض نماز سے پہلے یا بعد سنتیں نہ پڑھی جایئں۔
(2)
سفر کے دوران میں دیگر نفل نمازیں ادا کرنا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے دوران میں سواری پر نماز نفل ادا کرتے تھے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نما ز پڑھتے تھے۔
خواہ سواری کا منہ کسی طرف ہو۔ (نماز شروع کرنے کے بعد صرف شروع میں ایک مرتبہ رخ ہوکر نیت باندھتے)
پھر جب فرض ادا کرنے کا ارادہ فرماتے تو (سواری سے)
اتر کر قبلہ رو ہوجاتے۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، باب التوجه نحو القبلة حیث کان، حدیث: 400)
(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد وعمل معلوم ہونے کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔
تاہم اگر تاکید کے لئے دیگر علماء کاعمل یا فرما ن بھی ذکرکردیا جائے تو جائز ہے۔
جیسے حضرت عبدا للہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کا عمل بیان کیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1071
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 544
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ سفر کیا، یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد (سنت) نماز پڑھتا تو میں انہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 544]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث 551 پر مؤلف کے یہاں آ رہی ہے،
اور ضعیف و منکر ہے۔
2؎:
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے،
اور بیہقی کی روایت ہے کہ انہوں نے سبب یہ بیان کیا کہ پوری پڑھنی میرے لیے شاق نہیں ہے،
گویا سفر میں قصر رخصت ہے اور اتمام جائز ہے،
اور یہی راجح قول ہے۔
رخصت کے اختیار میں سنت پرعمل اور اللہ کی رضا حاصل ہوتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 544
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 551
´سفر میں نفل پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعںیی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 551]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اس کے راوی ”عطیہ عوفی“ ضعیف ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 551
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 552
´سفر میں نفل پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفر دونوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد دو رکعتیں، اور سفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں، اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔ اور مغرب کی سفر و حضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔ نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں، یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 552]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اس کے راوی ”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ“ ضعیف ہیں،
اور یہ حدیث صحیح احادیث کے خلاف ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 552
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1579
حفص بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ کے راستہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ سفر کیا۔ انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر وہ اور ہم اپنی قیام گاہ کی طرف بڑھے اور ہم ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اچانک انہوں نے اس جگہ کی طرف نظر دوڑائی جہاں انہوں نے نماز پڑھائی تھی تو لوگوں کو دیکھا کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز پوری... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1579]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نماز کے ساتھ سفر میں سنن مؤکدہ نہیں پڑھتے تھے لیکن صبح کی سنتیں پڑھتے تھے۔
اسی طرح وتر بھی پڑھتےتھے۔
اور عام نوافل بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے پڑھتے تھے۔
اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سنن مؤکدہ کا حکم نوافل والا ہو گا۔
ان کو نفل کی حیثیت سے پڑھ لیا جائے گا۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں نفل پڑھا کرتے تھے۔
(زاد المعاد،
طبع احیاء التراث الاسلامی:
ج،
ص: 456)
2۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ منیٰ کے سوا تمام مقامات پر سفر میں نماز قصر پڑھتے تھے۔
اس لیے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سفر میں آخر عمر تک دو رکعت سے زائد فرض نہیں پڑھے۔
3۔
احناف کے نزدیک مسافر اثنائے سفر میں سنت مؤکدہ نہ پڑھے اور حالت قیام میں پڑھ لے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1579
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1580
حفص بن عاصم بیان کرتے ہیں، میں ایک بیماری میں مبتلا ہوا تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما میری عیادت کے لیے آئے تو میں نے ان سے سفر میں سنتیں پڑھنے کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے کہا: میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ رہا ہوں تو میں نے آپ ﷺ کو سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا اور اگر مجھے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز ہی پوری پڑھتا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”رسول اللہ ﷺ تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1580]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مقصد یہ ہے کہ سفر کی بنا پر مسافر کی سہولت اورآسانی کی خاطر فرض نماز میں تخفیف کر دی گئی ہے تو سنن راتبہ کی پابندی کیوں ضروری ٹھہری؟ اگر مسافر کے لیے تخفیف وسہولت مطلوب نہ ہوتی تو نماز پوری پڑھنا ہی بہتر ٹھہرتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1580
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1594
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے آٹھ یا چھ سال منیٰ میں مسافر والی نماز پڑھی۔ حفص بیان کرتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ پھر اپنے بستر پر آ جاتے تھے۔ میں نے کہا: اے چچا! کاش آپ فرض نماز کے بعد دو سنتیں بھی پڑھ لیا کریں تو انہوں نے کہا: اگر میں ایسے کرتا تو نماز پوری پڑھ لیتا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1594]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف منیٰ میں چار رکعت پڑھنے لگے تھے۔
باقی مقامات پر دو رکعت ہی پڑھتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1594
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1101
1101. حفص بن عاصم سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ سفر میں تھے کہ فرمایا: میں نبی ﷺ کا ہم سفر رہا ہوں، میں نے آپ کو کبھی دوران سفر میں نفل پڑھتے نہیں دیکھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ”یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں بہترین نمونہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1101]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ سفرمیں خالی فرض نماز کی دو رکعتیں ظہر وعصر میں کافی ہیں سنت نہ پڑھنا بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1101
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1102
1102. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں، آپ دوران سفر دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس طرح حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی دو رکعت سے زیادہ نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1102]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت مسلم شریف میں یوں ہے۔
صحبت ابن عمر في طریق مکة فصلی بنا الظھررکعتین ثم أقبل وأقبلنا معه حتی جاء رحله وجلسنا معه فحانت منه التفاتة فرأی ناساً قیاما فقال ما یصنع ھولاء قلت یسبحون قال لو کنت مسبحا لأ تممت۔
(قسطلاني)
حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں مکہ شریف کے سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ تھا۔
آپ نے ظہر کی دو رکعت فرض نماز قصر پڑھائی پھر کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سنت پڑھ رہے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ اگر میں سنتیں پڑھوں تو پھر فرض ہی کیوں نہ پورے پڑھ لوں۔
اگلی روایت میں مزید وضاحت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سب کا یہی عمل تھا کہ وہ سفر میں نماز قصر کرتے اور ان دورکعتوں فرض کے علاوہ کوئی سنت نماز نہیں پڑھتے تھے۔
بہت سے ناواقف بھائیوں کو سفر میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اہل حدیث کے اس عمل پر تعجب کیا کرتے ہیں۔
بلکہ بعض تو اظہار نفرت سے بھی نہیں چوکتے، ان لوگوں کو خود اپنی ناواقفی پر افسوس کرنا چاہیے اور معلوم ہونا چاہیے کہ حالت سفر میں جب فرض نماز کو قصر کیا جارہا ہے پھر اس وقت سنت نمازوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1102
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1082
1082. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے ساتھ منیٰ میں دو دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ بھی شروع خلافت میں دو ہی پڑھیں، اس کے بعد انہوں نے پوری نماز پڑھنا شروع کر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1082]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے منیٰ میں نماز کے متعلق واضح حکم بیان نہیں کیا کہ ان دنوں قصر پڑھنی ہے یا پوری ادا کرنی ہے کیونکہ اس میں اختلاف ہے، پھر اگر نماز قصر پڑھنی ہے تو سفر کی وجہ سے یا مناسک حج کی بنا پر۔
ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ ایام حج (منیٰ، عرفات اور مزدلفہ)
میں نماز قصر ہی پڑھی جائے، سفر حج کی وجہ سے یہ رعایت ہر حاجی کے لیے ہے، خواہ وہ مکہ مکرمہ ہی کا رہائشی ہو، البتہ حضرت عثمان ؓ نے خلافت کے 6 سال بعد کسی خاص عذر کی وجہ سے نماز پوری پڑھنی شروع کر دی تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ایام منیٰ میں اگر اکیلے نماز پڑھتے تو دو رکعت، اگر امام کے ساتھ ادا کرتے تو چار رکعت پڑھتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے۔
(فتح الباري: 2/728، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1592(694)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1082
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1102
1102. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں، آپ دوران سفر دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس طرح حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی دو رکعت سے زیادہ نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1102]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا دوران سفر صرف نماز قصر پر اکتفا کرنا چاہیے۔
فرائض سے پہلے اور بعد میں سنت وغیرہ نہ پڑھی جائیں۔
اسوۂ نبوی یہی ہے۔
اس کی وضاحت ایک اور حدیث سے ہوتی ہے۔
راوئ حدیث کہتے ہیں:
میں طریق مکہ میں حضرت ابن عمر ؓ کا ہم سفر رہا ہوں۔
آپ نے ہمیں ظہر کی دو رکعت پڑھائیں، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ سنتیں پڑھ رہے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
”اگر قصر نماز کے بعد سنتیں پڑھنا ہوتیں تو بہتر تھا کہ قصر کے بجائے نماز کو پورا پڑھ لیا جاتا۔
“ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1579(689)
اس کے بعد حضرت ابن عمر ؓ نے مذکورہ حدیث سنائی۔
اس تفصیلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ دوران سفر نماز قصر پڑھتے تھے اور اس سے پہلے اور بعد میں کوئی سنت وغیرہ ادا نہیں کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کا بھی یہی معمول تھا لیکن دیگر نوافل، مثلاً:
تہجد یا اشراق وغیرہ پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ آئندہ عنوان میں اس کے متعلق بیان ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1102