Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
73. بَابُ : تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ فِي السَّفَرِ
باب: سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1063
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ زُبَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ:" صَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ، وَالْجُمُعَةُ رَكْعَتَانِ، وَالْعِيدُ رَكْعَتَانِ، تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ، عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سفر کی نماز دو رکعت ہے، جمعہ اور عید بھی دو رکعت ہیں، بہ زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل ہیں ناقص نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10596، ومصباح الزجاجة: 378)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الجمعة 37 (1421)، مسند احمد (1/37) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں شریک القاضی سیء الحفظ ہیں، لیکن سفیان ثوری نے مسند احمد میں ان کی متابعت کی ہے، اور عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ کا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع مختلف فیہ ہے، لیکن بعض علماء نے سماع کو ثابت مانا ہے، ملاحظہ ہو: نصب الرایہ: 2/189، و الإرواء: 3/106)

وضاحت: ۱؎: یعنی سفر میں دو ہی رکعتیں واجب ہیں، اور یہ نہیں ہے کہ چار واجب تھیں سفر کی وجہ سے دو ہو گئیں اب قرآن کریم میں جو آیا ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة» جب تم سفر میں ہو تو تم پر نماز کو قصر پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے (سورۃ النساء: ۱۰۱)، یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی، اور خوف کی قید اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے، یا خوف کی حالت میں نازل ہوئی، اور سفر کی حالت اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت نے آیت میں قصر سے مراد رکوع اور سجود کو ایما اور اشارہ سے کرنے کے معنی میں لیا ہے، اور امام بخاری نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ نماز پہلے دو ہی رکعت فرض ہوئی تھی پھر سفر کی نماز اپنی حالت پر باقی رہی اور حضر میں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں، اکثر ائمہ کے یہاں سفر میں قصر واجب ہے، امام ابوحنیفہ کے یہاں اتمام ناجائز ہے، اور امام شافعی کے نزدیک سفر میں قصر و اتمام دونوں جائز ہے، اور قصر افضل ہے، اور احادیث سے قصر کا وجوب ہی ثابت ہوتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسفار میں ہمیشہ قصر ہی ثابت ہے، ملاحظہ ہو: (الروضہ الندیہ: ۱/۳۷۳، ۳۷۴)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

وضاحت: ۱؎: یعنی سفر میں دو ہی رکعتیں واجب ہیں، اور یہ نہیں ہے کہ چار واجب تھیں سفر کی وجہ سے دو ہو گئیں اب قرآن کریم میں جو آیا ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة» جب تم سفر میں ہو تو تم پر نماز کو قصر پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے (سورۃ النساء: ۱۰۱)، یہاں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، کہ یہ آیت سفر میں نازل ہوئی، اور خوف کی قید اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے، یا خوف کی حالت میں نازل ہوئی، اور سفر کی حالت اتفاقی ہے، مفسرین کی ایک جماعت نے آیت میں قصر سے مراد رکوع اور سجود کو ایما اور اشارہ سے کرنے کے معنی میں لیا ہے، اور امام بخاری نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ نماز پہلے دو ہی رکعت فرض ہوئی تھی پھر سفر کی نماز اپنی حالت پر باقی رہی اور حضر میں دو دو رکعتیں بڑھا دی گئیں، اکثر ائمہ کے یہاں سفر میں قصر واجب ہے، امام ابوحنیفہ کے یہاں اتمام ناجائز ہے، اور امام شافعی کے نزدیک سفر میں قصر و اتمام دونوں جائز ہے، اور قصر افضل ہے، اور احادیث سے قصر کا وجوب ہی ثابت ہوتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسفار میں ہمیشہ قصر ہی ثابت ہے، ملاحظہ ہو: (الروضہ الندیہ: ۱/۳۷۳، ۳۷۴)
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1063 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1063  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں چار رکعت فرض ہیں لیکن سفر میں تخفیف کردی گئی ہے۔
اب سفر میں چار کے بجائے صرف دو رکعت پڑھ لینا کافی ہے۔

(2)
نماز قصر ادا کرنے سے ثواب میں کمی نہیں ہوتی۔
بلکہ چار رکعت کا ثواب ملتا ہے۔

(3)
جمعے کی نماز ظہر کے وقت ادا کی جاتی ہے۔
لیکن اس میں چار رکعت کی بجائے دو رکعت ہی فرض ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1063   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1421  
´نماز جمعہ کی رکعات کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جمعہ کی نماز، عید الفطر کی نماز، اور عید الاضحی کی نماز، اور سفر کی نماز، دو دو رکعتیں ہیں، اور یہ بزبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1421]
1421۔ اردو حاشیہ:
➊ سفر کی نماز ان دوسری نمازوں کے ساتھ اس لیے شامل ہے کہ یہ بھی اگر رباعی (چار رکعت والی) ہوں تو دو رکعت ہے، سوائے مغرب کی نماز کے، مغرب کی نماز تین رکعت ہی ہے، چاہے سفر ہو یا حضر، جب کہ باقی مذکورہ نمازیں ہیں ہی دو رکعت۔
➋ مذکورہ روایت کی بابت امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہی نہیں بلکہ کوئی روایت نہیں سنی۔ علمائے محققین اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت دیگر اسناد اور طرق سے بھی مروی ہے اور ان طرق کو محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت منقطع ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 280/16]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1421   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1441  
´باب:`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے، عید الاضحی کی نماز دو رکعت ہے، اور سفر کی نماز دو رکعت ہے، اور بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1441]
1441۔ اردو حاشیہ: نقص اور کمی نہیں کا مطلب ہے کہ یہ نمازیں مکمل ہیں، اس لیے کہ اللہ کی طرف سے یہ اتنی ہی تعداد مں مقرر ہیں۔ اسی طرح سفر میں دو رکعتیں بھی ثواب میں چار رکعتوں سے کم نہیں، اس لیے کہ یہ رخصت بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1441   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1567  
´عیدین کی نماز کی رکعات کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عید الاضحی کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے، مسافر کی نماز دو رکعت ہے، اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے۔ اور یہ سب (دو دو رکعت ہونے کے باوجود) بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکمل ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1567]
1567۔ اردو حاشیہ: یہ مسئلہ بھی متفق علیہ ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ جمہور علماء آثار صحابہ کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ مسافر چاہے تو پوری نماز، یعنی چار رکعت پڑھ سکتا ہے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نماز ہمیشہ دو رکعت ہی پڑھی ہے، اس لیے افضل قصر ہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1567