ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، اس کے بعد پہلی جیسی روایت ذکر کی، البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے: پھر لوگوں نے جہری نماز میں خاموشی اختیار کر لی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جہری نماز میں لوگوں نے آواز سے پڑھنا چھوڑ دیا، یا سورت کا پڑھنا ہی چھوڑ دیا، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا بھی چھوڑ دیا جیسا حنفیہ نے سمجھا ہے کیونکہ اس کے بغیر تو نماز ہی نہیں ہوتی، واضح رہے کہ حدیث کا آخری ٹکڑا «فسكتوا» مدرج ہے، زہری کا کلام ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 14264) (صحیح)»
It was narrated that Abu Hurairah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) led us in prayer,” and he mentioned a similar report, and added to it, and he said: “And after that they were quiet in the prayers in which the Imam recites aloud.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث849
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ان دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ سورۃ فاتحہ کے علاوہ تلاوت کی ممانعت جہری نمازوں میں ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ (فَلَا تَقْرٌءوا بِشَئٍْ مِّنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ إِلَّابِاُمِّ الْقُرْآنِ)(سنن ابی داؤد، الصلاۃ، ابواب تفریع استفتاح الصلاۃ، باب من ترک القراءت فی صلاته بفاتحة الکتاب، حدیث: 824) ”جب میں جہری قراءت کروں تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔“ البتہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں مذکور ہے۔ کہ ایسا ہی واقعہ کسی سری نماز میں بھی پیش آیا تھا۔ کہ ظہر یا عصر کی نماز میں کسی مقتدی نے ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ پڑھی تو رسول اللہ ﷺ نے نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب نہي المأموم عن جھرۃ بالقراۃ خلف إمامه، حدیث 398)
(2) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث پر جو عنوان ذکر فرمایا ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ مقتدی نے سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھی تھی۔ کشمکش کے الفاظ سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے۔ واللہ اعلم۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد مقتدی کو کچھ نہیں پڑھنا چاہیے۔ البتہ سری نماز میں دوسری سورت پڑھ سکتا ہے۔ لیکن بلند آواز سے نہ پڑھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 849