سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
33. بَابُ : الاِنْصِرَافِ مِنَ الصَّلاَةِ
باب: نماز کے بعد امام کے دائیں یا بائیں طرف پھرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 929
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" أَمَّنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ يَنْصَرِفُ عَنْ جَانِبَيْهِ جَمِيعًا".
ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تو اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف سے مڑتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 204 (1041)، سنن الترمذی/الصلاة 110 (301)، (تحفة الأشراف: 11733)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/226، 227) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر جدھر جی چاہے ادھر مقتدیوں کی طرف مڑ جائے، یہ ضروری نہیں کہ دائیں طرف ہی مڑے، اگرچہ دائیں طرف مڑنا بہتر ہے، لیکن واجب نہیں ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی کرے۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 929 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث929
اردو حاشہ:
فائدہ:
نماز سے فارغ ہوکر امام کا قبلے سے رخ پھیر کر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھنا مسنون ہے۔
اس مقصد کےلئے دایئں طرف سے بھی گھوم کر مقتدیوں کی طرف منہ کیا جا سکتا ہے۔
اور بایئں طرف سے بھی دونوں طرح درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 929
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 301
´(کبھی) اپنے دائیں سے اور (کبھی) اپنے بائیں سے پلٹنے کا بیان۔`
ہلب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے (تو سلام پھیرنے کے بعد) اپنے دونوں طرف پلٹتے تھے (کبھی) دائیں اور (کبھی) بائیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 301]
اردو حاشہ:
1؎:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے ((لَقَدْ رَأيْتُ رَسُولُ اللَّه صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيراً يَنْصَرِفُ عنْ يَسَارِهِ)) اور انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے ((أَكْثَرُ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ)) بظاہر ان دونوں روایتوں میں تعارض ہے،
تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے علم اور مشاہدات کے مطابق یہ بات کہی ہے۔
نوٹ:
(سند میں قبیصۃ بن ہلب لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں اس باب میں مروی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث (د/الصلاۃ 204حدیث رقم: 1042) سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 301