كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 40. بَابُ: التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ باب: حج تمتع کا بیان۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا: ”میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: یہ عمرہ ہے حج میں“ (یہ الفاظ دحیم کے ہیں)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 16 (1534)، سنن ابی داود/الحج 24 (1800)، (تحفة الأشراف: 10513)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/24) صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عقیق: مسجد نبوی سے چار میل (تقریباً ساڑھے چھ کلو) کی دوری پر ایک وادی ہے اور اب شہر کا ایک حصہ ہے۔ یہ جملہ «وقل: عمرة في حجة» احادیث میں تین طرح سے وارد ہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے «قال: عمرة في حجة» ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں «وقل: عمرة في حجة» امر کے صیغے کے ساتھ ہے اور بخاری کی روایت میں «وقل: عمرة و حجة» ہے «عمرة» اور «حجة» کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وادی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”آگاہ رہو، عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3815، ومصباح الزجاجة: 1045)، سنن النسائی/الحج 77 (2808)، مسند احمد (4/175) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آج کے بعد فائدہ پہنچائے، جان لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے ایک جماعت نے ذی الحجہ کے دس دنوں میں عمرہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع نہیں کیا، اور نہ قرآن مجید میں اس کا نسخ اترا، اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 23 (1226)، (تحفة الأشراف: 10856)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 36 (1571)، تفسیر البقرة 33 (4518)، سنن النسائی/الحج 49 (2728)، مسند احمد (4/427، 428، 429، 434، 436، 438)، سنن الدارمی/النسک 18 (1855) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور سنن ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ درست ہے، اس شخص نے کہا: آپ کے والد تو اس سے منع کرتے تھے، انہوں نے کہا: اگر میرے والد ایک بات سے منع کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیا ہو تو میرے والد کی پیروی کی جائے گی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی؟ اس شخص نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تمتع کیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتوؤں سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ آپ کے بعد امیر المؤمنین نے حج کے مسئلہ میں جو نئے احکام دئیے ہیں وہ آپ کو معلوم نہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے پوچھا، تو آپ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیا ہے، لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے عورتوں کے ساتھ رات گزاریں پھر حج کو جائیں، اور ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 22 (1221)، سنن النسائی/الحج 50 (2736)، (تحفة الأشراف: 10584)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/49)، سنن الدارمی/النسک 18 (1856) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|