كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 9. بَابُ: الْحَجِّ عَنِ الْمَيِّتِ باب: میت کی طرف سے حج کرنے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو «لبیک عن شبرمہ» ”حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے“ کہتے ہوئے سنا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”شبرمہ کون ہے“؟ اس نے بتایا: وہ میرا رشتہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے کبھی حج کیا ہے“؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس حج کو اپنی طرف سے کر لو، پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 26 (1811)، (تحفة الأشراف: 5564) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج دوسرے کی طرف سے نائب ہو کر کرنا جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سے پہلے خود اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: کیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اپنے والد کی طرف سے حج کرو، اگر تم ان کی نیکی نہ بڑھا سکے تو ان کی برائی میں اضافہ مت کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6555، ومصباح الزجاجة: 1024) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یعنی باپ کے بڑے احسانات ہیں، آدمی کو چاہئے کہ اپنے والد کی طرف سے خیر خیرات اور اچھے کام کرے، جیسے صدقہ اور حج وغیرہ، اگر یہ نہ ہو سکے تو اتنا ضروری ہے کہ والد کے ساتھ برائی نہ کرے، وہ برائی یہ ہے دوسرے لوگوں سے لڑ کر والد کو گالیاں دلوائے یا برا کہلوائے یا ان کے والد کو برا کہہ کر، جیسے دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: اپنے والد کو کون گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح سے کہ دوسرے کے والد کو گالی دے وہ اس کے والد کو گالی دے“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
مقام فرع کے ایک شخص ابوالغوث بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے حج کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا جو ان کے والد پر فرض تھا، اور وہ بغیر حج کیے مر گئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے والد کی جانب سے حج کرو“، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اسی طرح کا معاملہ نذر مانے ہوئے صیام کا بھی ہے کہ ان کی قضاء اس کی طرف سے کی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12077، ومصباح الزجاجة: 1025) (ضعیف الإسناد)» (سند میں عثمان بن عطاء خراسانی ضعیف ہیں، بلکہ بعضوں کے نزدیک متروک، حدیث کے پہلے جملہ کے لئے آگے کی حدیث (2906) دیکھیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
|