كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 74. بَابُ: مَنْ قَدَّمَ نُسُكًا قَبْلَ نُسُكٍ باب: مناسک حج کی تقدیم و تاخیر کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے حج کے کسی عمل کو دوسرے پر مقدم کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے یہی اشارہ کیا کہ ”کوئی حرج نہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 24 (84)، الحج 125 (1723)، 130 (1735)، الأیمان 15 (6666)، (تحفة الأشراف: 5999)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 57 (1307)، سنن ابی داود/الحج 79 (1983)، سنن النسائی/الحج 224 (3069)، مسند احمد (1/216، 269، 291، 300، 311، 328) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں“، ایک شخص نے آ کر کہا: میں نے قربانی سے پہلے حلق کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بات نہیں“، دوسرا بولا: میں نے رمی شام کو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بات نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 125 (1723)، 130 (1735)، سنن ابی داود/المناسک 79 (1983)، سنن النسائی/مناسک الحج 224 (3069)، (تحفة الأشراف: 6047)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/216، 258، 269، 291، 300، 311، 382) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جمرہ کبری کو کنکری مارنا، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارت) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے مگر باب کی روشنی میں رمی، ذبح حلق اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہو گا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے سر منڈانے سے پہلے قربانی کر لی، یا قربانی سے پہلے سر منڈا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 23 (83)، الحج 131 (1736، 1737)، صحیح مسلم/الحج 57 (1306)، سنن ابی داود/الحج 88 (2014)، سنن الترمذی/الحج 76 (916)، (تحفة الأشراف: 8906)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 81 (242)، مسند احمد (2/159، 160، 192، 202، 210، 217)، سنن الدارمی/المناسک 65 (1948) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں لوگوں (کو حج کے احکام بتانے) کے لیے بیٹھے، تو ایک شخص آپ کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، پھر دوسرا شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، آپ سے اس دن جس چیز کے بارے میں بھی پوچھا گیا جسے کسی چیز سے پہلے کر لیا گیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2398، ومصباح الزجاجة: 1059)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/326) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ کے پاس کھڑے تھے، ایک شخص نے آ کر کہا: میں نے رمی سے پہلے بال منڈا دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کر لو کچھ حرج نہیں“، دوسرے نے کہا: میں نے رمی سے پہلے ذبح کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کر لو کچھ نہیں ہے“، تیسرے نے کہا: میں نے رمی سے پہلے طواف افاضہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہے“، غرض جس چیز کے متعلق اس دن سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کر لو کچھ حرج نہیں“ اور اہل حدیث کا عمل انہی حدیثوں پر ہے، ان اعمال کی اگر تقدیم و تاخیر سہو سے ہو جائے تو کچھ نقصان نہیں، نہ دم لازم آئے گا۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|