كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 1. بَابُ: الْخُرُوجِ إِلَى الْحَجِّ باب: حج کے لیے نکلنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، وہ تمہارے سونے، اور کھانے پینے (کی سہولتوں) میں رکاوٹ بنتا ہے، لہٰذا تم میں سے کوئی جب اپنے سفر کی ضرورت پوری کر لے، تو جلد سے جلد اپنے گھر لوٹ آئے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمرة 19 (1804)، الجہاد 136 (3001)، الأطعمة 30 (5429)، صحیح مسلم/الإمارة 55 (1927)، (تحفة الأشراف: 12572)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان 15 (39)، مسند احمد (2/236، 445)، سنن الدارمی/الاستئذان 40 (2712) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت سفر میں رہنا اور تکلیفیں اٹھانا صحیح نہیں ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ سفر گرچہ حج یا جہاد کے لیے ہو تب بھی کام پورا ہونے کے بعد جلدی گھر لوٹنا بہتر ہے، اس میں خود اس شخص کو بھی آرام ہے اور اس کے گھر والوں کو بھی جو جدائی سے پریشان رہتے ہیں، اور مدت دراز تک شوہر کا اپنی بیوی سے علاحدہ رہنا بھی مناسب نہیں ہے، حاجت بشری اور خواہش انسانی ساتھ لگی ہوئی ہے مبادا گناہ میں گرفتاری ہو، اللہ بچائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس، فضل رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں یا ان میں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص حج کا قصد کرے تو اسے جلدی سے انجام دے لے، اس لیے کہ کبھی آدمی بیمار پڑ جاتا ہے یا کبھی کوئی چیز گم ہو جاتی ہے، (جیسے سواری وغیرہ) یا کبھی کوئی ضرورت پیش آ جاتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11047، ومصباح الزجاجة: 1015)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/المناسک 6 (1732)، مسند احمد (1/225، 323، 355)، سنن الدارمی/الحج 1 (1825) (حسن)» (سند میں اسماعیل بن خلیفہ ضعیف ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 990)
وضاحت: ۱؎: تاخیر کی صورت میں اس قسم کے حالات سے دو چار ہو سکتا ہے، اور آدمی ایک فرض کا تارک ہو سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن
|