كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 41. بَابُ: فَسْخِ الْحَجِّ باب: حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہو جائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سب سے زیادہ نیک اور سچا ہوں ۲؎، اگر میرے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی (عمرہ کر کے) حلال ہو جاتا (یعنی احرام کھول ڈالتا اور حج کو عمرہ میں تبدیل کر دیتا)۔ سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس وقت عرض کیا: حج میں یہ تمتع ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے“ ۳؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 23 (1787)، (تحفة الأشراف: 2426)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 17 (1216)، سنن النسائی/الحج 77 (2807) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی حج افراد کا احرام باندھا۔ ۲؎: یعنی جو کہہ رہا ہوں کسی پس و پیش کے بغیر انجام دو، میری کوئی بات تقویٰ و پرہیز گاری کے منافی نہیں ہو سکتی۔ ۳؎: ہر ایک شخص کے لیے قیامت تک تمتع کرنا جائز ہے، اس حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام باندھے لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہ ہو تو وہ مکہ میں جا کر حج کی نیت فسخ کر سکتا ہے، اور عمرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے، پھر یوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی ۸ تاریخ کو حج کے لئے نیا احرام باندھے، اور اس تاریخ (آٹھ) تک سب کام کر سکتا ہے جو احرام کی حالت میں جائز نہ تھے، امام ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کا فتوی ٰ دیا، پھر فتویٰ دیا کہ یہ امر مستحب ہے ضرور اس کام کو کرنا چاہئے، اور یہ حکم کسی دوسرے حکم سے منسوخ نہیں ہوا، اور دین اللہ تعالیٰ کا ہے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حج کو فسخ کر ڈالنا اور عمرہ کر دینا اگر کوئی ان احادیث کی روسے واجب کہے تو اس کا قول قوی ہو گا، بہ نسبت اس شخص کے قول کے جو اس سے منع کرتا ہے ... الی آخرہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ پہنچے یا اس سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جن لوگوں کے پاس ہدی (قربانی) کا جانور نہیں تھا احرام کھول دینے کا حکم دیا، تو سارے لوگوں نے احرام کھول دیا، سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس ہدی (قربانی) کے جانور تھے، پھر جب نحر کا دن (ذی الحجہ کا دسواں دن) ہوا تو ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، لوگوں نے کہا: یہ گائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ذبح کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 34 (1561)، 115 (1709)، 124 (1720)، الجہاد 105 (2952)، صحیح مسلم/الحج 17 (1211)، سنن النسائی/الحج 16 (2651)، 77 (2805، 2806)، (تحفة الأشراف: 17933)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الحج 23 (1781)، موطا امام مالک/الحج 58 (179)، مسند احمد (6/122، 266، 273) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام باندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے حج کو عمرہ کر دو“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو“، لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے تو بولیں: کس نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ اللہ اسے ناراض کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کیوں کر غصہ نہ کروں جب کہ میں ایک کام کا حکم دیتا ہوں اور میری بات نہیں مانی جاتی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1907، ومصباح الزجاجة: 1046)، وقد أخرجہ: (4/286) (ضعیف)» (ابو بکر بن عیاش بڑھاپے کی وجہ سے سئی الحفظ (حافظہ کے کمزور) ہو گئے تھے، اور ابو اسحاق اختلاط کا شکار تھے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4753)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سن کر اس پر عمل کرنے میں صرف اس خیال سے دیر کرے کہ یہ حدیث اس کے ملک کے رسم و رواج کے خلاف ہے، یا اس کے ملک یا قوم کے یا مذہب کے عالموں اور درویشوں یا اگلے بزرگوں نے اس پرعمل نہیں کیا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلاتا اور آپ کو ناراض کرتا ہے، اور جو اللہ تعالی کے رسول کو غصہ دلائے اور اس کو ناراض کرے اس کا ٹھکانا کہیں نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مومن کا کام یہ ہے کہ اس کو سنتے ہی جان و دل سے قبول کرے، اور فوراً اس پر عمل کرے“، اگر چہ تمام جہاں کے مولوی، ملا، درویش، پیر، مرشد، عالم اور مجتہد اس کے خلاف ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل کرنے میں دل نہایت خوش اور ہشاش بشاش ہو اور ذرا بھی کدورت اورتنگی نہ ہو بلکہ اپنے کو بڑا خوش قسمت سمجھے کہ اس کو حدیث رسول پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔ اگر ایسا نہ کرے یعنی عمل ہی نہ کرے یا عمل تو کرے مگر ذرا لیت ولعل یا اداسی کے ساتھ اس خیال سے کہ درویش اور مولوی اس کے خلاف ہیں، آخر ان لوگوں کا بھی کچھ درجہ اور مقام ہے، اور کچھ سمجھ کر ہی ان لوگوں نے حدیث کے خلاف کیا ہو گا؟ تو جان لینا چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض ہیں، اور ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ناراض ہو گئے اور بالفرض سارے زمانے کے مولوی یا درویش ہم سے خوش بھی ہوئے تو ہم ان کی خوشی کو کیا کریں گے، وہ خوش ہوں یا ناخوش ہوں ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ ہمارے رسول ہم سے خوش رہیں تو ہمارا بیڑا پار ہے، یااللہ مرتے ہی ہمیں ہمارے رسول اور آل و اصحاب رسول سے ملا دے، ہم دنیا میں بھی ان ہی کے پیرو تھے، عالم برزخ اور آخرت میں بھی ان ہی کی جوتیوں کے پاس رہنا چاہتے ہیں، نہ دنیا میں ہم کو کسی سے مطلب تھا، نہ عقبیٰ (آخرت) میں ہمیں کسی اور کا ساتھ چاہئے۔ اگرجنت میں جانے کا ارادہ ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا پٹہ گردن میں پہن لو۔ مسلک سنت پہ سالک تو چلا چل بے ڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) ہو، وہ اپنے احرام پر قائم رہے، اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول کر حلال ہو جائے“ اور میرے ساتھ ہدی کا جانور نہیں تھا چنانچہ میں نے احرام کھول دیا، اور زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہدی کا جانور تھا تو انہوں نے احرام نہیں کھولا، میں نے اپنا کپڑا پہن لیا، اور زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی تو انہوں نے کہا: میرے پاس سے چلی جاؤ، میں نے کہا: کیا آپ ڈرتے ہیں کہ میں آپ پر کود پڑوں گی؟۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 29 (1236)، سنن النسائی/الحج 186 (2995)، (تحفة الأشراف: 15739)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/351) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|