سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
27. بَابُ: اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ
باب: حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔
Chapter: Touching the Black Stone
حدیث نمبر: 2943
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عاصم الاحول ، عن عبد الله بن سرجس ، قال: رايت الاصيلع عمر بن الخطاب يقبل الحجر، ويقول:" إني لاقبلك وإني لاعلم انك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك، ما قبلتك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ ، قَالَ: رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ:" إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ، مَا قَبَّلْتُكَ".
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے «اصیلع» یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 41 (1270)، (تحفة الأشراف: 10486)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 50 (1597)، 57 (1605)، 60 (1610)، سنن ابی داود/الحج 47 (1873)، سنن الترمذی/الحج 37 (860)، سنن النسائی/الحج 147 (2940)، موطا امام مالک/الحج 36 (115)، مسند احمد (1/21، 26، 34، 35، 39، 46، 51، 53، 54)، سنن الدارمی/المناسک 42 (1906) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «اصیلع»: «اصلع» کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑ گئے ہوں اس کو «اصلع» کہتے ہیں۔
۲؎: کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شریعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے سبب سے حجر اسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اگر میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھر دوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہو گا، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزرا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھوکہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کر دیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2944
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا عبد الرحيم الرازي ، عن ابن خثيم ، عن سعيد بن جبير ، قال: سمعت ابن عباس ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لياتين هذا الحجر يوم القيامة وله عينان يبصر بهما، ولسان ينطق به، يشهد على من يستلمه بحق".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ الرَّازِيُّ ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيَأْتِيَنَّ هَذَا الْحَجَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ، يَشْهَدُ عَلَى مَنْ يَسْتَلِمُهُ بِحَقٍّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پتھر قیامت کے دن آئے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ رہا ہو گا، ایک زبان ہو گی جس سے وہ بول رہا ہو گا، اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہو گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 113 (961)، (تحفة الأشراف: 5536)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/247، 266، 291، 307، 371)، سنن الدارمی/المناسک 26 (1881) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی ایمان کے ساتھ، اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے شرک کی حالت میں حجر اسود کو چوما ان کے لیے اس کا چومنا کچھ مفید نہ ہوگا اس لیے کہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عبادت نفع بخش اور مفید نہیں ہوتی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2945
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا خالي يعلى ، عن محمد بن عون ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" استقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم الحجر، ثم وضع شفتيه عليه يبكي طويلا، ثم التفت، فإذا هو بعمر بن الخطاب يبكي، فقال يا عمر: هاهنا تسكب العبرات".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" اسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَرَ، ثُمَّ وَضَعَ شَفَتَيْهِ عَلَيْهِ يَبْكِي طَوِيلًا، ثُمَّ الْتَفَتَ، فَإِذَا هُوَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَبْكِي، فَقَالَ يَا عُمَرُ: هَاهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کی طرف رخ کیا، پھر اپنے دونوں ہونٹ اس پر رکھ دئیے، اور دیر تک روتے رہے، پھر ایک طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی رو رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8441، ومصباح الزجاجة: 1036) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن عون خراسانی ضعیف الحدیث و منکر الحدیث ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1111)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
حدیث نمبر: 2946
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عمرو بن السرح المصري ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابيه ، قال:" لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يستلم من اركان البيت، إلا الركن الاسود والذي يليه من نحو دور الجمحيين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُ مِنْ أَرْكَانِ الْبَيْتِ، إِلَّا الرُّكْنَ الْأَسْوَدَ وَالَّذِي يَلِيهِ مِنْ نَحْوِ دُورِ الْجُمَحِيِّينَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 40 (1268)، سنن النسائی/الحج 157 (2952)، (تحفة الأشراف: 6988)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 59 (1611)، سنن ابی داود/الحج 48 (1874)، مسند احمد (2/86، 114، 115)، سنن الدارمی/المناسک 25 (1880) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: طواف کرنے والے کو اختیار ہے کہ تین باتوں میں سے جو ممکن ہو سکے کرے ہر ایک کافی ہے، حجر اسود کا چومنا، یا اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کو چومنا، یا لکڑی اور چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرنا، اور اگر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے چومنا یا چھونا مشکل ہو تو صرف ہاتھ سے اشارہ کرنا ہی کافی ہے، اور ہر صورت میں لوگوں کو ایذاء دینا اور دھکیلنا منع ہے جیسے کہ اس زمانے میں قوی اور طاقتور لوگ کرتے ہیں، یا عورتوں کے درمیان گھسنا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.