كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 27. بَابُ: اسْتِلاَمِ الْحَجَرِ باب: حجر اسود کے استلام (چومنے یا چھونے) کا بیان۔
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے «اصیلع» یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوں حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 41 (1270)، (تحفة الأشراف: 10486)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 50 (1597)، 57 (1605)، 60 (1610)، سنن ابی داود/الحج 47 (1873)، سنن الترمذی/الحج 37 (860)، سنن النسائی/الحج 147 (2940)، موطا امام مالک/الحج 36 (115)، مسند احمد (1/21، 26، 34، 35، 39، 46، 51، 53، 54)، سنن الدارمی/المناسک 42 (1906) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «اصیلع»: «اصلع» کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑ گئے ہوں اس کو «اصلع» کہتے ہیں۔ ۲؎: کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شریعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے سبب سے حجر اسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اگر میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھر دوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہو گا، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزرا تھا، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھوکہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کر دیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پتھر قیامت کے دن آئے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ رہا ہو گا، ایک زبان ہو گی جس سے وہ بول رہا ہو گا، اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہو گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 113 (961)، (تحفة الأشراف: 5536)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/247، 266، 291، 307، 371)، سنن الدارمی/المناسک 26 (1881) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایمان کے ساتھ، اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے شرک کی حالت میں حجر اسود کو چوما ان کے لیے اس کا چومنا کچھ مفید نہ ہوگا اس لیے کہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عبادت نفع بخش اور مفید نہیں ہوتی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کی طرف رخ کیا، پھر اپنے دونوں ہونٹ اس پر رکھ دئیے، اور دیر تک روتے رہے، پھر ایک طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی رو رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8441، ومصباح الزجاجة: 1036) (ضعیف جدا)» (سند میں محمد بن عون خراسانی ضعیف الحدیث و منکر الحدیث ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1111)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 40 (1268)، سنن النسائی/الحج 157 (2952)، (تحفة الأشراف: 6988)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 59 (1611)، سنن ابی داود/الحج 48 (1874)، مسند احمد (2/86، 114، 115)، سنن الدارمی/المناسک 25 (1880) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: طواف کرنے والے کو اختیار ہے کہ تین باتوں میں سے جو ممکن ہو سکے کرے ہر ایک کافی ہے، حجر اسود کا چومنا، یا اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کو چومنا، یا لکڑی اور چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرنا، اور اگر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے چومنا یا چھونا مشکل ہو تو صرف ہاتھ سے اشارہ کرنا ہی کافی ہے، اور ہر صورت میں لوگوں کو ایذاء دینا اور دھکیلنا منع ہے جیسے کہ اس زمانے میں قوی اور طاقتور لوگ کرتے ہیں، یا عورتوں کے درمیان گھسنا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|