(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، وعمرو بن عبد الله ، قالا: حدثنا وكيع ، انبانا نافع بن عمر الجمحي ، عن سعيد بن حسان ، عن ابن عمر " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينزل بعرفة في وادي نمرة. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: فلما قتل الحجاج ابن الزبير، ارسل إلى ابن عمر : اي ساعة، كان النبي صلى الله عليه وسلم يروح في هذا اليوم، قال: إذا كان ذلك رحنا، فارسل الحجاج رجلا ينظر اي ساعة يرتحل، فلما اراد ابن عمر ان يرتحل، قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: لم تزغ بعد، فجلس ثم قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: لم تزغ بعد، فجلس ثم قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: لم تزغ بعد، فجلس ثم قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: نعم، فلما قالوا: قد زاغت، ارتحل"، قال وكيع: يعني راح. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، أَنْبَأَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ بِعَرَفَةَ فِي وَادِي نَمِرَةَ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: فَلَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ : أَيَّ سَاعَةٍ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُوحُ فِي هَذَا الْيَوْمِ، قَالَ: إِذَا كَانَ ذَلِكَ رُحْنَا، فَأَرْسَلَ الْحَجَّاجُ رَجُلًا يَنْظُرُ أَيَّ سَاعَةٍ يَرْتَحِلُ، فَلَمَّا أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ أَنْ يَرْتَحِلَ، قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: نَعَمْ، فَلَمَّا قَالُوا: قَدْ زَاغَتْ، ارْتَحَلَ"، قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي رَاحَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کی وادی نمرہ میں ٹھہرتے، راوی کہتے ہیں: جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس یہ پوچھنے کے لیے آدمی بھیجا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آج کے دن کس وقت (نماز اور خطبہ کے لیے) نکلتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، حجاج نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ دیکھتا رہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کب نکلتے ہیں؟ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے چلنے کا ارادہ کیا، تو پوچھا: کیا سورج ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، تو وہ بیٹھ گئے، پھر پوچھا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، پھر آپ بیٹھ گئے، پھر آپ نے کہا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو جب لوگوں نے کہا: ہاں، تو وہ چلے۔ وکیع نے «ارتحل» کا معنی «راح»(چلے) بتایا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 61 (1914)، (تحفة الأشراف: 7073)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 87 (1660)، موطا امام مالک/الحج 64 (195)، مسند احمد (2/25) (حسن)»