(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا المحاربي ، عن الشيباني ، عن واصل الاحدب ، عن شقيق ، قال:" بعث رجل معي بدراهم هدية إلى البيت، قال: فدخلت البيت وشيبة جالس على كرسي، فناولته إياها، فقال له: الك هذه؟، قلت: لا، ولو كانت لي، لم آتك بها، قال: اما لئن قلت ذلك، لقد جلس عمر بن الخطاب مجلسك الذي جلست فيه، فقال: لا اخرج حتى اقسم مال الكعبة بين فقراء المسلمين، قلت: ما انت فاعل؟، قال: لافعلن، قال: ولم ذاك؟، قلت: لان النبي صلى الله عليه وسلم قد راى مكانه وابو بكر وهما احوج منك إلى المال فلم يحركاه، فقام كما هو فخرج". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ:" بَعَثَ رَجُلٌ مَعِيَ بِدَرَاهِمَ هَدِيَّةً إِلَى الْبَيْتِ، قَالَ: فَدَخَلْتُ الْبَيْتَ وَشَيْبَةُ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ، فَنَاوَلْتُهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ لَهُ: أَلَكَ هَذِهِ؟، قُلْتُ: لَا، وَلَوْ كَانَتْ لِي، لَمْ آتِكَ بِهَا، قَالَ: أَمَا لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ، لَقَدْ جَلَسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَجْلِسَكَ الَّذِي جَلَسْتَ فِيهِ، فَقَالَ: لَا أَخْرُجُ حَتَّى أَقْسِمَ مَالَ الْكَعْبَةِ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ: مَا أَنْتَ فَاعِلٌ؟، قَالَ: لَأَفْعَلَنَّ، قَالَ: وَلِمَ ذَاكَ؟، قُلْتُ: لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَأَى مَكَانَهُ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا أَحْوَجُ مِنْكَ إِلَى الْمَالِ فَلَمْ يُحَرِّكَاهُ، فَقَامَ كَمَا هُوَ فَخَرَجَ".
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے ساتھ کچھ درہم خانہ کعبہ کے لیے ہدیہ بھیجے، میں خانہ کعبہ کے اندر آیا، اور شیبہ (خانہ کعبہ کے کلید بردار) کو جو ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے انہیں وہ درہم دے دئیے، انہوں نے پوچھا: کیا یہ تمہارے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، اگر میرے ہوتے تو میں انہیں آپ کے پاس نہ لاتا، (فقیروں اور مسکینوں کو دے دیتا) انہوں نے کہا: اگر تم ایسا کہتے ہو تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ عمر رضی اللہ عنہ اسی جگہ بیٹھے جہاں تم بیٹھے ہو، پھر انہوں نے فرمایا: میں باہر نہیں نکلوں گا جب تک کہ کعبہ کا مال مسلمان محتاجوں میں تقسیم نہ کر دوں، میں نے ان سے کہا: آپ ایسا نہیں کر سکتے، انہوں نے کہا: میں ضرور کروں گا، پھر آپ نے پوچھا: تم نے کیوں کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا؟، میں نے کہا: اس وجہ سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کی جگہ دیکھی ہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی، اور وہ دونوں آپ سے زیادہ اس کے ضرورت مند تھے، اس کے باوجود انہوں نے اس کو نہیں سرکایا، یہ سن کر وہ جیسے تھے اسی حالت میں اٹھے اور باہر نکل گئے۔