كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 43. بَابُ: السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ باب: صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا بیان۔
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرنے میں اپنے اوپر میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما» ”صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں، اور جو حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر گناہ نہیں، ان دونوں کی سعی کرنے میں“ اگر بات ویسی ہوتی جو تم کہتے ہو تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا: «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» اگر سعی نہ کرے تو (اس پر گناہ نہیں ہے) بات یہ ہے کہ یہ آیت انصار کے کچھ لوگوں کے بارے میں اتری ہے، وہ جب لبیک پکارتے تو منات (جو عربوں کا مشہور بت تھا) کے نام سے پکارتے، ان (کے اپنے اعتقاد کے مطابق ان کے) کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حلال نہ تھا تو جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے آئے تو انہوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «إن الصفا والمروة» ”صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، ان کے درمیان سعی کرنا گناہ نہیں (جیسا کہ تم اسلام سے پہلے سمجھتے تھے) اور قسم ہے کہ جس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی، اللہ تعالیٰ نے اس کا حج پورا نہیں کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 16820)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 79 (1643)، العمرة 10 (1790)، تفسیر البقرة 21 (4495)، تفسیر النجم 3 (4861)، صحیح مسلم/الحج 43 (1277)، سنن ابی داود/الحج 56 (1901)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (2969)، سنن النسائی/الحج 168 (2970)، موطا امام مالک/الحج 42 (129)، مسند احمد (3/144، 162، 227) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تو سعی واجب ہے اور ارکان حج میں سے ہے، مالک، احمد، اسحاق، ابو ثور اور اہل حدیث وغیرہ کا یہی قول ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
شیبہ کی ام ولد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے دیکھا، آپ فرما رہے تھے: ”ابطح کو دوڑ ہی کر طے کیا جائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 177 (2983)، (تحفة الأشراف: 18382)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/404، 405) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ام ولد: ایسی لونڈی جس نے اپنے مالک کے بچہ کو جنا ہو۔ ابطح: صفا اور مروہ کے درمیان ایک مقام ہے، اب وہاں دو ہرے نشان بنا دئیے گئے ہیں، وہاں دوڑ کر سعی کرنی چاہئے یہ ہاجرہ علیہا السلام کی سنت ہے، وہ پانی کی تلاش میں یہاں سات بار دوڑی تھیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اگر میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے آپ کو ایسا بھی چلتے دیکھا ہے، اور میں بہت بوڑھا ہوں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 56 (1904)، سنن الترمذی/الحج 39 (864)، سنن النسائی/الحج 174 (2979)، (تحفة الأشراف: 7379)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 34 (130)، مسند احمد (2/53، 60، 61، 120)، سنن الدارمی/المناسک 25 (1880) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کا یہ مطلب ہے کہ دوڑنا اور معمولی چال سے چلنا دونوں طرح سنت ہے، ا ور اگر چلنا سنت بھی ہو تب بھی چلنے میں میرے لیے حرج نہیں، اس لیے کہ میں ناتواں بوڑھا ہوں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|