كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 104. . بَابُ: فَضْلِ الْمَدِينَةِ باب: مدینہ کی فضیلت کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان مدینہ میں اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنی بل میں سما جاتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج6 (1876)، صحیح مسلم/الإیمان 65 (147)، (تحفة الأشراف: 12266)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/286، 422، 496) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس طرح آخری زمانہ میں اسلام بھی سب ملکوں سے ہوتا ہوا مدینہ میں آ کر دم لے گا، سابق میں مدینہ ہی سے اسلام ساری دنیا میں پھیلا اخیر زمانہ میں سمٹ کر پھر مدینہ ہی میں آ جائے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو مدینہ میں مر سکے تو وہ ایسا ہی کرے، کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے لیے گواہی دوں گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 68 (3917)، (تحفة الأشراف: 7553)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/74، 104) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ابراہیم تیرے خلیل (گہرے دوست) اور تیرے نبی ہیں، اور تو نے مکہ کو بزبان ابراہیم حرام ٹھہرایا ہے، اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور میں مدینہ کو اس کی دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان کی جگہ کو حرام ٹھہراتا ہوں“ ۱؎۔ ابومروان کہتے ہیں: «لابتيها» کے معنی مدینہ کے دونوں طرف کی کالی پتھریلی زمینیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14040، ومصباح الزجاجة: 1078)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 85 (1372)، سنن الترمذی/الدعوات 54 (3454)، موطا امام مالک/الجامع 1 (2) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جو دونوں طرف مدینہ کے کناروں پر ہیں، اور اس وقت حرہ شرقیہ اور حرہ غربیہ کے نام سے دو بڑے آباد محلے ہیں، ایک جماعت علماء اور اہل حدیث کا یہ مذہب ہے کہ مدینہ کا حرم بھی حرمت میں مکہ کے حرم کی طرح ہے، اور وہاں کا درخت بھی اکھیڑنا منع ہے، اسی طرح وہاں کے شکار کا ستانا اور حنفیہ اور جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ مدینہ کا حرم احکام میں مکہ کے حرم کی طرح نہیں ہے، اور اس حدیث سے صر ف اس کی تعظیم مراد ہے، یعنی وہ ہلاک اور تباہ ہو جائے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ والوں کو جو کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح گھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15068)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 89 (1386)، مسند احمد (2/279، 309، 357) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے، اور وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر قائم ہے، اور عیر (یہ بھی ایک پہاڑ ہے) جہنم کے باغات میں سے ایک باغ پر قائم ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 977، ومصباح الزجاجة: 1079) (ضعیف)» (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور ان کے شیخ عبداللہ بن مکنف مجہول ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے، جب کہ صحیح بخاری میں دوسری سند سے انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، (2889- 3367)، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1820)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
|