كتاب المناسك کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل 3. بَابُ: فَضْلِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ باب: حج اور عمرہ کی فضیلت۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج اور عمرہ کو یکے بعد دیگرے ادا کرو، اس لیے کہ انہیں باربار کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10477، ومصباح الزجاجة: 1018) (صحیح)» (سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن اصل حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1200)
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک جتنے گناہ ہوں ان سب کا کفارہ یہ عمرہ ہوتا ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمرة 1 (1773)، صحیح مسلم/الحج 79 (1349)، سنن النسائی/الحج 5 (2630)، (تحفة الأشراف: 12573)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 90 (933)، موطا امام مالک/الحج 21 (65)، مسند احمد (2/246، 461، 462)، سنن الدارمی/الحج 7 (1836) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حج مبرور: حج مقبول کو کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک مبرور وہ حج ہے جس میں کوئی گنا ہ سرزد نہ ہو، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ حج مبرور وہ حج ہے جس میں حج کے تمام شرائط اور آداب کی پابندی کی گئی ہو، اور بعضوں نے کہاکہ حج مبرور کی نشانی یہ ہے کہ اس کے بعد حاجی کا حال بدل جائے یعنی توجہ الی اللہ اور عبادت میں مصروف رہے، اور جن گناہوں کو حج سے پہلے کیا کرتا تھا ان سے باز رہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا، اور نہ (ایام حج میں) جماع کیا، اور نہ گناہ کے کام کئے، تو وہ اس طرح واپس آئے گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 18 (26)، الحج 4 (1519و1521)، المحصر 9 (1819)، 10 (1820)، صحیح مسلم/الحج 78 (1350)، سنن الترمذی/الحج 2 (811)، سنن النسائی/الحج 4 (2628)، (تحفة الأشراف: 13431)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/229، 248، 410، 484، 494)، سنن الدارمی/الحج 7 (1836) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 342)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|