كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 84. بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ باب: موزوں پر مسح کا بیان۔
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے پوچھا گیا: کیا آپ ایسا کرتے ہیں؟ کہا: میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں: لوگ جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث پسند کرتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد اسلام قبول کیا، (کیونکہ سورۃ المائدہ میں پیر کے دھونے کا حکم تھا) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 25 (387)، صحیح مسلم/الطہارة 22 (272)، سنن الترمذی/الطہارة 70 (118)، سنن النسائی/الطہارة 96 (118)، القبلة 23 (775)، (تحفة الأشراف: 3235)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/358، 363، 364) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں لوگوں سے مراد اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، جس کی صراحت مسلم کی روایت میں ہے، مطلب یہ کہ سورہ مائدہ میں وضو کا حکم ہے، اگر جریر رضی اللہ عنہ کا اسلام نزول آیت سے پہلے ہوتا تو احتمال تھا کہ یہ حکم منسوخ ہو، اور جب متأخر ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سنت آیت کی مخصص ہے، اور حکم یہ ہے کہ اگر پیروں میں وضو کے بعد «خف» (موزے) پہنے ہوں تو مسح کافی ہے، دھونے کی ضرورت نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم (305، 306)، (تحفة الأشراف: 3335) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے، وہ ایک لوٹے میں پانی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو لیے، جب آپ اپنی ضرورت سے فارغ ہو گئے، تو وضو کیا، اور موزوں پر مسح کیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 48 (182)، 49 (203)، المغازي 81 (4421)، اللباس 11 (5799) صحیح مسلم/الطہارة 22 (274)، سنن ابی داود/الطہارة 59 (149)، سنن النسائی/الطہا رة 63 (79)، 66 (82)، 79 (96)، 80 (97)، (تحفة الأشراف: 11514)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة 75 (100)، موطا امام مالک/الطہارة 8 (41)، مسند احمد (4/255)، سنن الدارمی/الطہارة 41 (740) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سعد بن مالک (سعد بن مالک ابن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو کہا: کیا آپ لوگ بھی ایسا کرتے ہیں؟ وہ دونوں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھا ہوئے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میرے بھتیجے کو موزوں پر مسح کا مسئلہ بتائیے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتے تھے، اور اپنے موزوں پر مسح کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: خواہ کوئی بیت الخلاء سے آئے؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10570، ومصباح الزجاجة: 225)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 49 (202)، موطا امام مالک/الطہارة 8 (42)، مسند احمد (1/35) (صحیح)» (اس سند میں سعید بن أبی عروبہ مدلس صاحب اختلاط راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن بقول بوصیری محمد بن سواء نے ان سے اختلاط سے پہلے روایت کی ہے، نیز دوسرے طرق ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا، اور ہمیں موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4800، ومصباح الزجاجة: 227) (صحیح)» (اس حدیث کی سند میں عبد المہیمن ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا کہ آپ نے فرمایا: ”کچھ پانی ہے“؟، پھر آپ نے وضو کیا، اور موزوں پر مسح کیا، پھر لشکر میں شامل ہوئے اور ان کی امامت فرمائی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ما جہ، (تحفة الأشراف: 1093، ومصباح الزجاجة: 227) (ضعیف)» (عمر بن المثنی الاشجعی الرقی مستور ہیں، اور عطاء خراسانی اور انس رضی اللہ عنہ کے مابین انقطاع ہے، جس کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجاشی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سیاہ سادے موزے بطور ہدیہ پیش کئے، آپ نے انہیں پہنا، پھر وضو کیا اور ان پر مسح کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 59 (155)، سنن الترمذی/الأدب 55 (2820)، (تحفة الأشراف: 1956)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/352)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3620) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
|