كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 34. بَابُ: النَّهْيِ عَنْ ذَلِكَ باب: عورت کے وضو کے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی ممانعت۔
حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 40 (82)، سنن الترمذی/الطہارة 47 (64)، سنن النسائی/المیاہ 11 (344)، (تحفة الأشراف: 3421)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/213، 5/66) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے پاکی حاصل کرنے کے جواز اور عدم جواز کے سلسلے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں، لہٰذا ممانعت یا عدم جواز کی روایات کو اس پانی پر محمول کیا جائے، جو اعضاء کو دھوتے وقت گرا ہو، یا ان میں وارد ممانعت نہی تنزیہی ہے، تحریمی نہیں، یعنی نہ کرنا اولیٰ اور بہتر ہے، جواز کی روایتوں کو برتن میں بچے ہوئے پانی پر محمول کیا جائے، اس صورت میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے اور عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے، البتہ دونوں ایک ساتھ شروع کریں۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: صحیح پہلی حدیث یعنی حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ کی ہے، اور دوسری حدیث یعنی عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کی وہم ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5325، ومصباح الزجاجة: 155) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اوپر کی حدیث (۳۷۳) صحیح ہے، امام ترمذی کہتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا: عبداللہ سرجس کی اس باب میں حدیث موقوف صحیح ہے، جس نے اسے مرفوع بیان کیا غلطی کی (سنن ترمذی: ۱/ ۱۹۳)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی اسی کی ہم معنی حدیث آئی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، اور کوئی ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل نہیں کرتا تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10051، ومصباح الزجاجة: 156)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/77) (ضعیف)» (اس سند میں ”الحارث الاعور“ ضعیف راوی ہے)
وضاحت: ۱؎: ظاہر یہ ہے کہ غسل ایک کا دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے جائز ہے، مگر نہی جو وارد ہوئی ہے تنزیہی ہے، یعنی نہ کرنا اولیٰ اور بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|