كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 66. بَابُ: الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ باب: آگ پر پکی ہوئی چیز کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر نیچے بچھے ہوئے چمڑے میں اپنا ہاتھ پونچھا، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوئے، اور نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 75 (189)، (تحفة الأشراف: 6110، ومصباح الزجاجة: 201)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 18 (5404)، صحیح مسلم/الحیض 24 (354)، سنن النسائی/الطہارة 123 (182)، موطا امام مالک/الطہارة 5 (19)، مسند احمد (1/326) (صحیح)» (سند میں سماک بن حرب ہیں، جن کی عکرمہ سے راویت میں اضطراب ہے، لیکن دوسرے طرق کی وجہ سے یہ صحیح ہے، اس لئے کہ مسند احمد میں سفیان نے سماک کی متابعت کی ہے، ایسے ہی ایوب نے بھی متابعت کی ہے (مسند احمد 1/273) نیز زہیر نے بھی سماک کی متابعت کی ہے، (1/267) نیز حدیث کے دوسرے طرق ہیں، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 182- 184)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے روٹی اور گوشت کھایا، اور وضو نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2372، 2547، 3038، ومصباح الزجاجة: 202)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة 53 (4547)، سنن ابی داود/الطہارة 75 (191)، سنن الترمذی/الطہارة 59 (80)، سنن النسائی/الطہارة 123 (185)، حم (3/351، 81 3) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
زہری کہتے ہیں کہ میں ولید یا عبدالملک کے ساتھ شام کے کھانے پہ حاضر ہوا، جب نماز کا وقت ہوا تو میں وضو کے لیے اٹھا تو جعفر بن عمرو بن امیہ ۱؎ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد (عمرو بن امیہ ضمری مدنی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ پہ پکا ہوا کھانا کھایا، پھر نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا۔ علی بن عبداللہ بن عباس نے کہا کہ میں اپنے والد (عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما) کے بارے میں بھی اسی طرح کی گواہی دیتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 50 (208)، صحیح مسلم/الحیض 24 (354، 355)، سنن الترمذی/الأطعمة 33 (1836)، (تحفة الأشراف: 6289، 10700)، وقدأخرجہ: مسند احمد (4/179139، 5/ 287، 288)، سنن الدارمی/الطہارة 38 (737) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جعفر عبدالملک بن مروان کے رضاعی بھائی تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بکری کی (پکی ہوئی) دست پیش کی گئی، آپ نے اس میں سے کھایا، پھر نماز پڑھی، اور پانی کو ہاتھ نہیں لگایا۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطہارة 123 (182)، (تحفة الأشراف: 18269)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/292، 306، 317، 319، 323) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سوید بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی جانب نکلے، جب مقام صہباء ۱؎ میں پہنچے تو عصر کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا منگایا تو صرف ستو لایا گیا لوگوں نے اسے کھایا، پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا، اور کلی کی، پھر اٹھے اور ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 51 (209)، 54 (215)، الجہاد، 123 (2981)، المغازي 3 (4175)، الأطعمة 8 (5384)، 9 (5390)، سنن النسائی/الطہارة 124 (186)، (تحفة الأشراف: 4813)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 5 (20) مسند احمد (3/ 462، 488) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «صہباء»: خیبر سے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے دست کا گوشت کھایا، پھر کلی کی، اور اپنے ہاتھ دھو کر نماز پڑھی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12729، ومصباح الزجاجة: 203)، مسند احمد (2/389) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث سے پچھلے باب کی احادیث منسوخ ہیں، یا پچھلے باب کی احادیث میں وضو سے مراد ہاتھ وغیرہ دھونا ہے ناکہ شرعی وضو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|