كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 39. بَابُ: الرَّجُلِ يَسْتَعِينُ عَلَى وُضُوئِهِ فَيُصَبُّ عَلَيْهِ باب: وضو میں کسی سے مدد لینے کا بیان جو اس پر پانی ڈالے۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی حاجت کے لیے تشریف لے گئے، جب آپ واپس ہوئے تو میں لوٹے میں پانی لے کر آپ سے ملا، میں نے پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنا چہرہ دھویا، پھر اپنے دونوں بازو دھونے لگے تو جبہ کی آستین تنگ پڑ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکال لیے، انہیں دھویا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 7 (363)، صحیح مسلم/الطہارة 23 (274)، سنن النسائی/الطہارة 66 (82)، (تحفة الأشراف: 11528)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 59 (149)، موطا امام مالک/الطہارة 8 (41)، حم4/255، سنن الدارمی/الطہارة 41 (740) (صحیح) (یہ مکرر ہے، ملاحظہ ہو: 545)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا برتن لے کر آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی ڈالو“ ۱؎، میں نے پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ اور اپنے دونوں بازو دھوئے اور نیا پانی لے کر سر کے اگلے اور پچھلے حصے کا مسح کیا، اور اپنے دونوں پاؤں تین تین بار دھوئے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 50 (127)، سنن الترمذی/الطہارة 25 (33)، (تحفة الأشراف: 15837)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/461)، سنن الدارمی/الطہارة 24 (717) (حسن)» (سند میں شریک القاضی سئ الحفظ ضعیف راوی ہیں، اس لئے «مَائً جَدِيداً» کا لفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 117- 122)
وضاحت: ۱؎: اوپر کی ان تینوں احادیث سے معلوم ہوا کہ وضو میں تعاون لینا درست ہے، اس میں کوئی کراہت نہیں۔ قال الشيخ الألباني: حسن دون الماء الجديد
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر و حضر میں کئی بار وضو کرایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4956، ومصباح الزجاجة: 161) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں ولید بن عقبہ مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: وضو کرانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پانی ڈالتے اور آپ ﷺ وضو کرتے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی ام عیاش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کراتی تھی، میں کھڑی ہوتی تھی اور آپ بیٹھے ہوتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18340، ومصباح الزجاجة: 162) (ضعیف)» (یہ سند ضعیف ہے اس لئے کہ عبد الکریم بن روح ضعیف، اور روح بن عنبسہ مجہول راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|