كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 32. بَابُ: الْوُضُوءِ بِسُؤْرِ الْهِرَّةِ وَالرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ باب: بلی کے جھوٹے سے وضو کے جائز ہونے کا بیان۔
کبشہ بنت کعب رضی اللہ عنہما جو ابوقتادہ کی بہو تھیں کہتی ہیں کہ انہوں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے وضو کے لیے پانی نکالا تو ایک بلی آئی اور اس میں سے پینے لگی، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے برتن جھکا دیا، میں ان کی جانب حیرت سے دیکھنے لگی تو انہوں نے کہا: بھتیجی! تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بلی ناپاک نہیں ہے وہ گھروں میں گھومنے پھرنے والوں یا والیوں میں سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 38 (75)، سنن الترمذی/الطہارة 69 (92)، سنن النسائی/الطہارة 54 (68)، (تحفة الأشراف: 12141)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 3 (13)، مسند احمد (5/296، 303، 309)، سنن الدارمی/الطہارة 58 (763) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے وضو کیا کرتے تھے اور اس سے پہلے بلی اس میں سے پی چکی ہوتی تھی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17887، ومصباح الزجاجة: 152)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطھارة 38 (76) (صحیح)» (حدیث کی سند میں حارثہ بن ابی الرجال ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 69، 70)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلی نماز کو نہیں توڑتی، اس لیے کہ وہ گھر کے سامانوں میں سے ایک سامان ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14964، ومصباح الزجاجة: 153) (ضعیف)» (سند میں عبدالرحمن بن أبی الزناد ضعیف اور مضطرب الحدیث ہیں، لیکن سنن کبری بیہقی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1512)
وضاحت: ۱؎: عبیداللہ بن عبدالمجید کی کنیت ”ابوبکر“ نہیں بلکہ ”ابوعلی“ ہے، ابوبکر ان کے بھائی ہیں (ملاحظہ ہو: تہذیب الکمال) قال الشيخ الألباني: ضعيف
|