كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 40. بَابُ: الرَّجُلِ يَسْتَيْقِظُ مِنْ مَنَامِهِ هَلْ يُدْخِلُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا باب: کیا سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے سے پہلے آدمی اپنے ہاتھ کو برتن میں ڈالے؟
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص رات کو سو کر بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، جب تک کہ دو یا تین مرتبہ اس پہ پانی نہ بہا لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطہارة 19 (24)، سنن النسائی/الغسل 29 (440)، (تحفة الأشراف: 13189)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 26 (162) ولیس عندہ ذکر العدد، صحیح مسلم/الطہارة 26 (278)، سنن ابی داود/الطہارة 49 (103)، موطا امام مالک/الطہارة 2 (9)، مسند احمد (2/241، 253، سنن الدارمی/الطہارة 78 (793) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: دن کو سو کر اٹھے جب بھی یہی حکم ہے کہ دھوئے بغیر ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، اور یہ نہی تنزیہی ہے، یعنی ہاتھ دھلنا فرض نہیں ہے، بلکہ اچھا اور مستحب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص سو کر اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھو نہ لے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 6894، ومصباح الزجاجة: 163) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص نیند سے اٹھے، اور وضو کرنا چاہے تو اپنا ہاتھ وضو کے پانی میں نہ ڈالے، جب تک کہ اسے دھو نہ لے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا، اور اس نے اسے کس چیز پہ رکھا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2793، ومصباح الزجاجة: 164) (منکر) (اس حدیث میں «ولا على ما وضعها» کا لفظ منکر ہے، اور صحیح مسلم میں یہ حدیث اس کے بغیر موجود ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 93)»
قال الشيخ الألباني: منكر بزيادة ولا على ما وضعها وهو في م دونها
حارث کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے پانی منگایا اور برتن میں ہاتھ داخل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 10052، ومصباح الزجاجة: 165) (صحیح)» سند میں حارث ضعیف ہے، اور ابواسحاق ثقہ لیکن مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 94، 97، 100، 101، 106، 109، 111)
قال الشيخ الألباني: صحيح
|