كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 70. بَابُ: الْوُضُوءِ مِنَ الْمَذْيِ باب: مذی سے وضو کے حکم کا بیان۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی ۱؎ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”اس میں وضو ہے، اور منی ۲؎ میں غسل ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطہارة 83 (114)، (تحفة الأشراف: 10225)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل 13 (269)، سنن ابی داود/الطہارة 83 (207)، سنن النسائی/الطہارة 112 (157)، الغسل 28 (436)، مسند احمد (1/82، 108، 110) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 47، 125)»
وضاحت: ۱؎: مذی: وہ لیس دار پتلا پانی ہے، جو ابتداء شہوت میں مرد کے عضو تناسل سے بغیر اچھلے نکلتا ہے اور جس پر وضو ہے۔ ۲؎: منی سے مراد وہ رطوبت ہے، جو شہوت کے وقت عضو تناسل سے اچھل کر نکلتی ہے، جس پر غسل واجب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جو اپنی بیوی سے قریب ہوتا ہے، اور اسے انزال نہیں ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ایسا ہو تو آدمی اپنی شرمگاہ پر پانی ڈال لے یعنی اسے دھو لے، اور وضو کر لے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 83 (207)، سنن النسائی/الطہارة 112 (156)، (تحفة الأشراف: 11544)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 13 (53)، مسند احمد (1/124، 6/4، 5) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگر قربت سے انزال نہ ہو تب بھی اس کو بہر حال غسل کرنا ہو گا، مقداد کی یہ حدیث منسوخ ہے: «إذا التقى الختان» سے، یعنی جب دو ختنے باہم مل جائیں تو غسل واجب ہے، انزال ہو یا نہ ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے شدت سے مذی آتی تھی جس کی وجہ سے میں کثرت سے غسل کیا کرتا تھا، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”اس سے وضو کافی ہے“، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! جو کپڑے میں لگ جائے اس کا حکم کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک چلو پانی لو، اور جہاں پہ دیکھو کہ مذی لگ گئی ہے وہاں پہ چھڑک دو، بس یہ تمہارے لیے کافی ہو گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 83 (210)، سنن الترمذی/الطہارة 84 (115)، (تحفة الأشراف: 4664)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/485)، سنن الدارمی/الطہارة 49 (750) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: لیکن یہ تبھی ہے جب یقین ہو کہ یہ مذی ہے، اگر یقین ہو کہ منی ہے، تو غسل کرنا ہی ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ہاں گئے۔ وہ (گھر سے) باہر تشریف لائے۔ (بات چیت کے دوران ان میں ابی نے) فرمایا: مجھے مذی آ گئی تھی تو میں نے عضو خاص کو دھو کر وضو کیا ہے (اس لیے باہر آنے میں دیر ہوئی) عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا یہ (وضو کر لینا) کافی ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: کیا آپ نے یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (خود) سنا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 51، ومصباح الزجاجة: 210)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/320، 5/117) (ضعیف الإسناد)» (سند ابوحبیب کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے)
وضاحت: ۱ ؎: مذی اور اسی طرح پیشاب اور پاخانہ کے راستہ سے جو چیز بھی نکلے اس سے وضو ٹوٹنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|