كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 25. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ الْبَوْلِ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ باب: ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 28 (281)، سنن النسائی/ الطہا رة 31 (35)، (تحفة الأشراف: 2911)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/ 341، 350) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد وہ پانی ہے جو نہر اور دریا کے پانی کی طرح جاری نہ ہو، جیسے گڑھا، جھیل اور تالاب وغیرہ کا پانی ان میں پیشاب کرنا منع ہے، تو پاخانہ کرنا بدرجہ اولیٰ منع ہو گا۔ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے ہی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بدبودار ہو جاتا ہے، اگر اس میں مزید نجاست اور گندگی ڈال دی جائے، تو یہ پانی مزید بدبودار ہو جائے گا، اور اس کی سڑاند سے قرب و جوار کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی، اور صحت عامہ میں خلل پیدا ہو گا، اور ماحول آلودہ ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی شخص ہرگز پیشاب نہ کرے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 36 (70)، (تحفة الأشراف: 14137)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضو 69 (239)، صحیح مسلم/الطہارة 28 (282)، سنن النسائی/الطہارة 46 (58)، مسند احمد (2/316، 346، 362، 464)، سنن الدارمی/الطہارة 54 (757) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی شخص ہرگز پیشاب نہ کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7493، ومصباح الزجاجة: 142) (ضعیف)» (سند میں اسحاق بن عبداللہ أبی فروہ متروک ہیں، لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ «الماء الدائم» کے لفظ سے صحیح اور متفق علیہ ہے، کماتقدم، نیز ملاحظہ ہو: سنن ابی داود: 69-70)
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ الماء الدائم
|