كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 76. بَابُ: الْحِيَاضِ باب: حوض اور تالاب کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان جو حوض و تالاب واقع ہیں، اور ان پر درندے، کتے اور گدھے پانی پینے آتے ہیں، تو ایسے حوضوں و تالابوں کا اور ان کے پانی سے طہارت حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ انہوں نے اپنی تہ میں سمیٹ لیا، وہ ان کا حصہ ہے، اور جو پانی حوض (تالاب) میں بچا، وہ ہمارے لیے پاک کرنے والا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4186، ومصباح الزجاجة: 216) (ضعیف)» (عبدالرحمن بن زید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1609)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک تالاب پر پہنچے تو دیکھا کہ اس میں ایک گدھے کی لاش پڑی ہوئی ہے ہم اس (کے استعمال) سے رک گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ (یہ سنا) تو ہم نے پیا پلایا، اور پانی بھر کر لاد لیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3114) (صحیح)» (سند میں طریف بن شہاب اور شریک القاضی ضعیف ہیں، اس لئے یہ اسناد ضعیف ہے، اور «جیفہ حمار» کا قصہ صحیح نہیں ہے، لیکن بقیہ مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: ا لإرواء: 14، وصحیح ابی داود: 59)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قصة الجيفة
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جو چیز اس کی بو، مزہ اور رنگ پر غالب آ جائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4860، ومصباح الزجاجة: 218) (ضعیف)» (رشدین اور راشد بن سعد دونوں ضعیف ہیں، یہ حدیث صحیح نہیں ہے، لیکن علماء کا اس کے عمل پر اجماع ہے، یعنی اگر نجاست پڑنے سے پانی میں تبدیلی پیدا ہو جائے تو وہ پانی نجس ہے)
وضاحت: ۱؎: نجاست پڑنے کے بعد اگر پانی میں بو، رنگ اور مزہ کی تبدیلی ہو جائے تو وہ پانی کم ہو یا زیادہ نجس و ناپاک ہو جائے گا، اس پر علماء کا اجماع ہے کما تقدم۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|