كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 77. بَابُ: مَا جَاءَ فِي بَوْلِ الصَّبِيِّ الَّذِي لَمْ يَطْعَمْ باب: کھانا نہ کھانے والے بچے کے پیشاب کا حکم۔
لبابہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنا کپڑا دے دیجئیے اور دوسرا کپڑا پہن لیجئیے (تاکہ میں اسے دھو دوں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچے کے پیشاب پہ پانی چھڑکا جاتا ہے، اور بچی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 137 (375)، (تحفة الأشراف: 18055)، ویأتی عند المؤلف في تعبیر الرؤیا (3923) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوداؤد کی ایک روایت میں «مالم يطعم» (جب تک وہ کھانا نہ کھانے لگے) کی قید ہے، اس لئے جو روایتیں مطلق ہیں مقید پر محمول کی جائیں گی، مؤلف نے ترجمۃ الباب میں «الصبى الذي لم يطعم» کہہ کر اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کر دیا، آپ نے اس پر صرف پانی بہا لیا، اور اسے دھویا نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17284، ومصباح الزجاجة: 219)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 95 (222)، العقیقة 1 (5468)، الأدب 21 (6002)، الدعوات 30 (6355)، صحیح مسلم/الطہارة 31 (286)، سنن النسائی/الطہارة 189 (304)، موطا امام مالک/الطہارة 30 (109)، مسند احمد (6/52، 210، 212) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے ایک شیرخوار بچے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس نے آپ کے اوپر پیشاب کر دیا، آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 59 (223)، الطب 10 (5693)، صحیح مسلم/الطہارة 31 (287)، سنن ابی داود/الطہارة 137 (374)، سنن الترمذی/ الطہارة 54 (71)، سنن النسائی/الطہارة 189 (303)، (تحفة الأشراف: 18342)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة 30 (110)، مسند احمد (6/355، 356)، سنن الدارمی/الطہارة 53 (768) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شیرخوار بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا: ”بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے، اور بچی کا پیشاب دھویا جائے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 137 (377)، سنن الترمذی/الطھارة 54 (610)، الصلاة 430 (610)، (تحفة الأشراف: 10131)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/97) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوالیمان مصری کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث «يرش من الغلام، ويغسل من بول الجارية» بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے اور بچی کا پیشاب دھویا جائے کے متعلق پوچھا کہ دونوں میں فرق کی کیا وجہ ہے جب کہ پیشاب ہونے میں دونوں برابر ہیں؟ تو امام شافعی نے جواب دیا: لڑکے کا پیشاب پانی اور مٹی سے بنا ہے، اور لڑکی کا پیشاب گوشت اور خون سے ہے، اس کے بعد مجھ سے کہا: کچھ سمجھے؟ میں نے جواب دیا: نہیں، انہوں نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، تو ان کی چھوٹی پسلی سے حواء پیدا کی گئیں، تو بچے کا پیشاب پانی اور مٹی سے ہوا، اور بچی کا پیشاب خون اور گوشت سے، پھر مجھ سے پوچھا: سمجھے؟ میں نے کہا: ہاں، اس پر انہوں نے مجھ سے کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے نفع بخشے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوسمح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم تھا، آپ کے پاس حسن یا حسین کو لایا گیا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر پیشاب کر دیا، لوگوں نے اسے دھونا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر پانی چھڑک دو، اس لیے کہ بچی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جاتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 137 (376)، سنن النسائی/الطہارة 190 (305)، (تحفة الأشراف: 12051، 12052) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچے کے پیشاب پہ چھینٹا مارا جائے، اور بچی کا پیشاب دھویا جائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18350، ومصباح الزجاجة: 220)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/ 422، 440، 464) (صحیح)» (اس سند میں انقطاع ہے اس لئے کہ عمرو بن شعیب کا ام کرز سے سماع نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث اور دوسرے شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں شریعت نے فرق رکھا ہے، اس کو روکنے کے لئے طرح طرح کی تاویلات فاسدہ کرنا محض تعصب بے جا کی کرشمہ سازی ہے، مسلمان کو اس کے رسول کا فرمان کافی ہے، اس کے سامنے اسے کسی دوسری طرف نہیں دیکھنا چاہئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|