كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 33. بَابُ: الرُّخْصَةِ بِفَضْلِ وَضُوءِ الْمَرْأَةِ باب: عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی رخصت کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی نے لگن سے غسل کیا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور اس بچے ہوئے پانی سے غسل یا وضو کرنا چاہا تو وہ بولیں: اے اللہ کے رسول! میں ناپاک تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی ناپاک نہیں ہوتا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 35 (68)، سنن الترمذی/الطہارة 48 (65)، سنن النسائی/المیاة (326)، (تحفة الأشراف: 6103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/235، 284، 308، 337)، سنن الدارمی/الطہارة 57 (762) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جنبی مرد یا عورت اگر برتن میں ہاتھ دھو کر یا ہاتھ وغیرہ ڈال دیں یا اس میں سے نکال کر استعمال کریں تو باقی پانی ناپاک نہیں ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے غسل سے بچے ہوئے پانی سے وضو اور غسل جائز ہے تو وضو کے بچے ہوئے پانی سے وضو بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی نے غسل جنابت کیا، پھر ان کے بچے ہوئے پانی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو یا غسل کیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے غسل جنابت سے بچے ہوئے پانی سے وضو کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18071، ومصباح الزجاجة: 154)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/330) (صحیح)» (سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، اور سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن دونوں کی متابعت موجود ہے، اس لئے کہ حاکم نے مستدرک (1/159) میں اس حدیث کو محمد بن بکر سے، اور انہوں نے شعبہ سے، اورشعبہ نے سماک سے روایت کیا ہے، اور شعبہ اپنے مشائخ سے صرف صحیح احادیث ہی روایت کرتے ہیں، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: فتح الباری (1/300)، نیز محمد بن بکر نے شریک کی متابعت کی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
|