كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 56. بَابُ: مَا جَاءَ فِي غَسْلِ الْقَدَمَيْنِ باب: وضو میں دونوں پاؤں کے دھونے کا بیان۔
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا، اور اپنے دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھویا، پھر کہنے لگے: میرا مقصد یہ تھا کہ تمہیں تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دکھلا دوں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10324)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة50 (116)، سنن الترمذی/الطہارة 37 (48)، سنن النسائی/ الطہارة 79 (96)، 93 (115)، مسند احمد (1/142، 156، 157) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حديث صحيح
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور اپنے دونوں پیروں کو تین تین بار دھویا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11574، ومصباح الزجاجة: 187)، مسند احمد (4/132) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ربیع رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ابن عباس رضی اللہ عنہما آئے، اور انہوں نے مجھ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا، اس سے وہ اپنی وہ حدیث مراد لے رہی تھیں جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور اپنے دونوں پیر دھوئے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگ پاؤں کے دھونے ہی پر مصر ہیں جب کہ میں قرآن کریم میں پاؤں کے صرف مسح کا حکم پاتا ہوں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15844، ومصباح الزجاجة: 188)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/360) (حسن)» (اس میں عباس کا اثر منکر ہے، اس کے راوی ابن عقیل کے حافظہ میں ضعف تھا، اور اس ٹکڑے کی روایت میں کسی نے ان کی متابعت نہیں کی ہے)۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں ”ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا“ سے آخر تک محدثین کرام کے نزدیک منکر ہے، اس لئے اس کی بنیاد پر حدیث کے ضعف پر استدلال درست نہیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما خود پیر دھونے پر عامل اور اس کے قائل تھے۔ قال الشيخ الألباني: حسن دون فقال ابن عباس فإنه منكر
|