كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 21. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ الْخَلاَءِ عَلَى قَارِعَةِ الطَّرِيقِ باب: راستہ میں پیشاب و پاخانہ کرنا منع ہے۔
ابوسعید حمیری بیان کرتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایسی احادیث بیان کرتے تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے نہیں سنی ہوتی تھیں، چنانچہ جو حدیثیں سنی ہوئی ہوتیں ان کے بیان سے خاموش رہتے، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو ان کی یہ حالت اور بیان کردہ روایات پہنچیں تو انہوں نے کہا: قسم اللہ کی! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے ہوئے نہیں سنا، قریب ہے کہ معاذ تم کو قضائے حاجت کے مسئلے میں فتنے میں مبتلا کر دیں، یہ خبر معاذ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ ان سے جا کر ملے اور کہا: اے عبداللہ بن عمرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کو جھٹلانا نفاق ہے، اگر کہنے والے نے کوئی بات جھوٹ کہی تو اس کا گناہ اسی پر ہو گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعی یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ”تین ایسی چیزوں سے بچو جو لعنت کا سبب ہیں: مسافروں کے وارد ہونے کی جگہوں پر، سائے دار درختوں کے نیچے، اور عام راستوں پر قضائے حاجت کرنے سے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 14 (26)، (تحفة الأشراف: 11370، ومصباح الزجاجة: 134) (حسن)» (سند میں ابوسعید الحمیری کا سماع معاذ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 62)
وضاحت: ۱؎: جن مقامات پر لوگ اپنے یا جانوروں کے پانی کے لئے جاتے ہوں، جہاں آرام کے لئے سایہ میں بیٹھتے ہوں، یا جس راستہ پر چلتے ہوں اس پر پاخانہ کرنا لعنت کا سبب ہے، کیونکہ اس سے لوگوں کو ایذاء پہنچتی ہے، اور لوگ لعن و طعن کرتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: حسن
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچ راستے میں رات کو پڑاؤ ڈالنے اور نماز پڑھنے سے بچو، اس لیے کہ وہ سانپوں اور درندوں کے باربار آنے اور جانے کا راستہ ہے، اور وہاں قضائے حاجت سے بھی بچو اس لیے کہ یہ لعنت کے اسباب میں سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2229، ومصباح الزجاجة: 135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/5 30) (حسن)» (اس سند میں سالم بن عبد اللہ الخیاط البصری ہیں، حافظ ابن حجر نے انہیں صدوق سئی الحفظ کہا ہے، مگر زہیر بن محمد التمیمی اور عمرو بن أبی سلمہ دونوں ضعیف ہیں، اور حسن بصری اور جابر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، نیز اس حدیث میں «والصلاة عليها» کا لفظ ثابت نہیں ہے، لیکن حدیث کے جملے متفرق طور پر صحیح ہیں، پہلا جملہ «إياكم والتعريس» صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اور آخری ٹکڑے: «وقضاء الحاجة عليها فإنها من الملاعن» کے کافی شواہد ہیں: ملاحظہ ہو: ا لإرواء: 1/ 101، وسلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2433)
قال الشيخ الألباني: حسن دون الصلاة عليها
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں نماز پڑھنے یا پاخانہ پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6904، ومصباح الزجاجة: 136) (ضعیف)» (سند میں ابن لہیعہ اور عمرو بن خالد ضعیف ہیں، لیکن متن صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإراوء: 1/101 - 102 - 319)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|