سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
84. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ
باب: موزوں پر مسح کا بیان۔
حدیث نمبر: 543
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ:" بَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ:" وَمَا يَمْنَعُنِي وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ"، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: كَانَ يُعْجِبُهُمْ حَدِيثُ جَرِيرٍ لِأَنَّ إِسْلَامَهُ كَانَ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ.
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے پوچھا گیا: کیا آپ ایسا کرتے ہیں؟ کہا: میں ایسا کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں: لوگ جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث پسند کرتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد اسلام قبول کیا، (کیونکہ سورۃ المائدہ میں پیر کے دھونے کا حکم تھا) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 25 (387)، صحیح مسلم/الطہارة 22 (272)، سنن الترمذی/الطہارة 70 (118)، سنن النسائی/الطہارة 96 (118)، القبلة 23 (775)، (تحفة الأشراف: 3235)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/358، 363، 364) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں لوگوں سے مراد اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، جس کی صراحت مسلم کی روایت میں ہے، مطلب یہ کہ سورہ مائدہ میں وضو کا حکم ہے، اگر جریر رضی اللہ عنہ کا اسلام نزول آیت سے پہلے ہوتا تو احتمال تھا کہ یہ حکم منسوخ ہو، اور جب متأخر ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سنت آیت کی مخصص ہے، اور حکم یہ ہے کہ اگر پیروں میں وضو کے بعد «خف» (موزے) پہنے ہوں تو مسح کافی ہے، دھونے کی ضرورت نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 543 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث543
اردو حاشہ:
(1)
یہاں سورہ مائدہ کی طرف جو اشارہ دیا گیا ہے اس سے مراد سورہ مائدہ کی آیت نمبر6 ہے جس میں وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔
(2)
اگر حضرت جریر رضی اللہ عنہ سورہ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے مسلمان ہوئے ہوتے اور رسول اللہ ﷺکا موزوں پر مسح کرنا بیان فرماتے تو شبہ ہو سکتا تھا کہ مسح کا حکم مذکورہ بالا آیت سے منسوخ ہو گیا۔
لیکن حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو ثابت ہوا کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہوا۔
حضرت جریر رضی اللہ عنہ 10ھ میں اسلام لائے تھے۔
(3)
موزوں پر مسح کرنے کی روایات 80 صحابہ سے مروی ہیں جن میں حضرات عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
(4)
موزوں پر مسح کو منسوخ قراردینے والی روایات اور قصے ناقابل اعتبار اور ناقابل احتجاج ہیں دیکھیے: (حاشہ وحید الزمان خان حدیث: 543)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 543
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 154
´موزوں پر مسح`
«. . . أَنَّ جَرِيرً بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَقَالَ:" مَا يَمْنَعُنِي أَنْ أَمْسَحَ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ؟ . . .»
”. . . ابوزرعہ بن عمرو بن جریر کہتے ہیں کہ جریر رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا تو دونوں موزوں پر مسح کیا اور کہا کہ مجھے مسح کرنے سے کیا چیز روک سکتی ہے جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (موزوں پر) مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 154]
فوائد و مسائل:
➊ حضرت جریر رضی اللہ عنہ سن دس ہجری کے شروع میں مسلمان ہوئے ہیں اور آیت وضو «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ» سورۂ مائدہ کی چھٹی آیت ہے۔ اس میں سر کے مسح کا ذکر ہے موزوں کا نہیں بلکہ پاؤں دھونے کا حکم ہے۔ تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ موزوں پر مسح کرنا منسوخ ہے۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے واضح کیا کہ میں اس سورت کے نزول کے بعد اسلام لایا ہوں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے اور موزوں پر مسح کرتے خود دیکھا ہے۔ لہٰذا یہ عمل بلاشبہ صحیح، جائز اور مسنون ہے۔ منسوخ سمجھنا درست نہیں۔ شیعہ اور خوارج کے علاوہ اور کوئی اس کا منکر نہیں ہے۔
➋ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک یہ اصول اٹل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسر اور مبین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: «وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ» ” اور ہم نے تمہاری طرف یہ ذکر اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو جو ان کی طرف نازل کیا گيا ہے بالوضاحت بیان کر دیں۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 154
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 387
´ موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا (جائز ہے) `
«. . . عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى فَسُئِلَ، فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا . . .»
”. . . ہمام بن حارث سے روایت کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور (موزوں سمیت) نماز پڑھی۔ آپ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/بَابُ الصَّلاَةِ فِي الْخِفَافِ: 387]
تخريج الحديث:
[155 البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 25 باب الصلاة فى الخفاف 387، مسلم 272، أبوداود 154، ترمذي 93]
لغوی توضیح:
«بَالَ» پیشاب کیا۔
«خُفَّيْه» اپنے موزوں (پر)، اس کی واحد «خُفّ» ہے۔
فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موزوں پر مسح جائز ہے۔ شیخ البانی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کے اثبات میں متواتر احادیث موجود ہیں۔ [الصحيحة تحت الحديث: 2940، نظم الفرائد 254/1]
علاوہ ازیں ایک صحیح روایت میں جرابوں اور جوتوں پر مسح کے جواز کا بھی ذکر ہے۔ [صحيح: صحيح أبوداود 147، 148، إرواء الغليل 101، ترمذي 99، ابن ماجه 559]
لیکن مسح کے لئے یہ شرط ہے کہ موزے یا جرابیں وضو کی حالت میں پہنی ہوں۔ [شرح مسلم للنووي 173/2]
جیسا کہ آئندہ احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ مسح کی مدت مقیم کے لیے ایک دن رات اور مسافر کے لیے تین دن اور راتیں ہے۔ [مسلم: كتاب الطهارة 676، ابن ماجه 552]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 155
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 118
´موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا، اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہا گیا: کیا آپ مسح کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسح کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 118]
118۔ اردو حاشیہ:
➊ موزوں پر مسح کرنااہل سنت کا اجماعی مسئلہ ہے۔ شیعہ حضرات ہر حال میں ننگے پاؤں پر مسح کے قائل ہیں اور خوارج ہر حال میں پاؤں دھونے ہی کے قائل ہیں۔ اہل سنت چند شروط کے ساتھ موزوں پر مسح کے قائل و فاعل ہیں اور یہی درست ہے۔
➋ بعض حضرات جو مسح کے قائل نہیں، ان کا کہنا ہے کہ موزوں کے مسح کی روایات سورۂ مائدہ کے نزول سے قبل کی ہیں کیونکہ سورۂ مائدہ میں وضو اور خصوصاً پاؤں دھونے کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موزوں پر مسح کے جواز کے راوی سیدنا جریررضی اللہ عنہ بھی ہیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف چالیس (40) دن قبل مسلمان ہوئے۔ ان کا آپ کو مسح کرتے دیکھنا قطعی دلیل ہے کہ موزوں پر مسح منسوخ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ اس سے مسلک اہل سنت کی زبردست تائید ہوتی ہے، نیز یہ قرآنی حکم کے منافی بھی نہیں بلکہ قرآن مجید کے الفاظ ﴿وامسحوا برء وسکم وارجلکم﴾ [المآئدة: 6: 5]
میں أرجلکم کی ایک قرأت مجرور کی بھی ہے۔ اور علماء اس میں یہ تطبیق دیتے ہیں کہ اگر اسے مجرور پڑھا جائے تو اس کا مطلب موزوں پر مسح کرنا ہو گا۔ قرآن مجید اور سب احادیث کو ملانے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پاؤں ننگے ہوں تو دھوئے جائیں اگر جرابوں اور موزوں میں ہوں تو ان پر مسح کیا جائے۔ اس طرح آیت وضو اور احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ شیعہ اور خوارج کی بات ماننے سے بہت سی صحیح روایات کا انکار کرنا پڑتا ہے اور یہ گمراہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 118
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 775
´موزوں میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ہمام کہتے ہیں کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے پیشاب کیا پھر پانی منگایا، اور وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی، تو اس کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 775]
775 ۔ اردو حاشیہ: موزوں میں نماز پڑھنا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 775
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 93
´موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔`
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، ان سے کہا گیا: کیا آپ ایسا کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس کام سے کون سی چیز روک سکتی ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کو جریر رضی الله عنہ کی یہ حدیث اچھی لگتی تھی کیونکہ ان کا اسلام سورۃ المائدہ کے نزول کے بعد کا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 93]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے موزوں پر مسح کا جواز ثابت ہوتا ہے،
موزوں پر مسح کی احادیث تقریباً اسی(80) صحابہ کرام سے آئی ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں،
علامہ ابن عبدالبر نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے،
امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح علی خفین (موزوں پرمسح) کی احادیث تواتر تک پہنچی ہیں اور جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں مجھے ان کے کفرکا اندیشہ ہے،
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسح خفین کی حدیثیں آیت مائدہ سے منسوخ ہیں ان کا یہ قول درست نہیں کیونکہ مسح علی خفین کی حدیث کے راوی جریر رضی اللہ عنہ آیت مائدہ کے نزول کے بعد اسلام لائے،
اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں بلکہ یہ آیت مائدہ کی مبیّن اورمخصص ہیں،
یعنی آیت میں پیروں کے دھونے کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو موزے نہ پہنے ہوں،
رہا موزے پر مسح کا طریقہ تو اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے بھگو کر ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے شروع تک کھینچ لیاجائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 93
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 94
´موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔`
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، میں نے ان سے پوچھا: آپ کا یہ عمل سورۃ المائدہ کے نزول سے پہلے کا ہے، یا بعد کا؟ تو کہا: میں تو سورۃ المائدہ اترنے کے بعد ہی اسلام لایا ہوں، یہ حدیث آیت وضو کی تفسیر کر رہی ہے اس لیے کہ جن لوگوں نے موزوں پر مسح کا انکار کیا ہے ان میں سے بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے موزوں پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 94]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں شہر بن حوشب میں کلام ہے،
لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
الإرواء 1/137)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 94
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 611
´سورہ مائدہ کے نزول کے بعد بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔`
شہر بن حوشب کہتے ہیں: میں نے جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو دیکھا، انہوں نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ چنانچہ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ سورۃ المائدہ کے نزدول سے پہلے کی بات ہے یا مائدہ کے بعد کی؟ تو انہوں نے کہا: میں نے مائدہ کے بعد ہی اسلام قبول کیا تھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 611]
اردو حاشہ:
1؎:
سورہ مائدہ کے نازل ہونے کے پہلے یا بعد سے کا مطلب یہ تھا کہ وضو کا حکم سورہ مائدہ ہی میں ہے،
اس لیے اگر مسح کا معاملہ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے کا ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ مائدہ کی آیت سے مسح منسوخ ہو گیا،
مگر معاملہ یہ ہے کہ وضو کا حکم آ جانے کے بعد بھی آپ ﷺ نے پاؤں پر مسح کیا،
اس سے ثابت ہوا کہ مسح کا معاملہ منسوخ نہیں ہوا۔
نوٹ:
(سند میں شہر بن حوشب کے اندر کلام ہے،
لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 611
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:815
815-ہمام بن حارث بیان کرتے ہیں۔ میں نے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مسجد کے وضو خانے سے وضو کرتے ہوئے دیکھا؟ جہاں سے عام لوگ بھی وضو کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے موزوں پر مسح کر لیا تو ان سے دریافت کیاگیا: آپ ایسا کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں ایسا کیوں نہ کروں، جبکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی بیا ن کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کو یہ روایت بہت پسند تھی۔ کیونکہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے سورۃ مائدہ نازل ہونے کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:815]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔ یاد رہے کہ جرابوں پر سے کرنا بھی ثابت ہے۔ اس مسئلہ پر تفصیل گزر چکی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 816
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 622
ہمام بیان کرتے ہیں: حضرت جریرہ ؓ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، تو ان سے کہا گیا: آپ یہ کام کرتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔“ ابراہیم بیان کرتے ہیں: لوگوں کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ جریرہ ؓ سورہٴ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:622]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
معلوم ہوتا ہے صحابہ کرام ؓ سورۂ مائدہ کی آیت سے پاؤں دھونے کا حکم سمجھتے تھے،
اگر وہ اس آیت سے پاؤں پر مسح کا حکم سمجھتے،
تو انہیں یہ حدیث اتنی زیادہ پسند نہ ہوتی۔
اگر وہ حضرت جریرؓ سورۂ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے مسلمان ہوچکے ہوتے تو یہ احتمال پیدا ہوسکتا تھا،
کہ مسح کا حکم مائدہ کی آیت سے جو دھونے پر دلالت کرتی ہے،
منسوخ ہوچکا ہے،
اس لیے تمام اہل سنت کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا جائز ہے،
صرف شیعہ اور خارجی اس کے منکر ہیں۔
ان کے نزدیک موزوں پر مسح نہیں ہوسکتا،
خارجیوں کے نزدیک پاؤں دھوئے جائیں گے،
اور شیعہ کے نزدیک پاؤں پر مسح ہوگا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 622
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:387
387. ہمام بن حارث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے ایک دفعہ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا، پھر وضو فرمایا تو اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر وہ کھڑے ہوئے اور (موزوں سمیت) نماز ادا کی، ان سے اس کی بابت پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی ؒ کہتے ہیں کہ اہل علم حضرات کو یہ حدیث بہت پسند تھی، کیونکہ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ آخر میں اسلام لائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:387]
حدیث حاشیہ:
1۔
شیعہ حضرات کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا اور انہیں پہن کر نماز پڑھنا درست نہیں۔
امام بخاری ؒ نے ثابت فرمایا کہ موزے پہن کر نماز پڑھنا درست ہے۔
گرمی اور سردی سے پاؤں کی حفاظت کا یہ دوسرا طریقہ ہے کہ زمین اور پاؤں کے درمیان موزوں کو حائل کردیا جائے۔
سورہ مائدہ میں آیت وضو کے نزول کے بعد بعض صحابہ کو شبہ ہو گیا تھا کہ شاید اب مسح کی اجازت منسوخ ہو چکی ہےاور پاؤں ہر حالت میں دھونے پڑیں گے۔
جب حضرت جریر ؓ نے یہ واقعہ بیان کیا تو لوگوں نے ان سے کہا کہ مسح کا حکم تو نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تو اسلام ہی سورہ مائدہ کے نزول کے بعد لایا ہوں۔
بعض روایات میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام لائے۔
(فتح الباري: 641/1)
اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ حضرات نے جو آیت مائدہ کا مفہوم اس طرح متعین کیا ہے کہ پاؤں پر ہر حالت میں مسح کرنا چاہیے۔
یہ سراسر غلط ہے۔
اسی طرح خوارج کا تشدد بھی درست نہیں. 2۔
محمد بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے جب حضرت جریر ؓ کو موزوں پر مسح کر کے ان میں نماز پڑھتے دیکھا۔
نیز سوال کرنے پر انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق اپنا مشاہدہ بیان کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ مشاہدہ نزول سورہ مائدہ سے پہلے کا ہے یا بعد کا؟ انھوں نے فرمایا:
میں تو مسلمان ہی نزول سورہ مائدہ کے بعد ہوا ہوں۔
(جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 94)
اس حدیث پر امام ترمذی ؒ بایں الفاظ تبصرہ کرتے ہیں:
اس حدیث نے خوب وضاحت کردی ہے، کیونکہ جو لوگ موزوں پر مسح کرنے سے انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ موزوں پر مسح کی رخصت نزول سورہ مائدہ سے پہلے تھی، لیکن حضرت جریر ؓ کے عمل سے وضاحت ہو گئی کہ سورہ مائدہ میں وضو کے وقت پاؤں دھونے کا جو ذکر ہے، اس سے موزوں پر مسح کرنے کا عمل منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ حکم آخر وقت تک باقی رہا۔
نوٹ:
حدیث مغیرہ بن شعبہ ؓ سے متعلقہ دیگر فوائد گزشتہ حدیث: 182۔
میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 387