كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 75. بَابُ: مِقْدَارِ الْمَاءِ الَّذِي لاَ يَنْجَسُ باب: پانی کی وہ مقدار جس میں نجاست پڑنے سے پانی نجس نہیں ہوتا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحراء اور میدان میں واقع ان گڈھوں کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا جن سے مویشی اور درندے پانی پیتے رہتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو قلہ (دو بڑے مٹکے کے برابر) ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 33 (64)، سنن الترمذی/الطہارة 50 (67)، (تحفة الأشراف: 7305)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطہارة 44 (52)، سنن الدارمی/الطہارة 54 (758) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: اگر پانی دو قلہ سے زیادہ ہو گا تو بدرجہ اولی ناپاک نہ ہو گا، اور اگر اس کا رنگ، بو، یا مزہ یا ان میں سے کوئی کسی ناپاک چیز کے پڑنے سے بدل جائے، تو ناپاک ہو جائے گا، دو قلہ کا اندازہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ میں یہ بیان کیا ہے کہ کسی ایسے حوض میں کہ جس کی زمین برابر ہوا گر پانی جمع کریں تو تقریباً سات بالشت لمبا اور پانچ بالشت چوڑا ہو گا، اور یہ ادنیٰ درجہ ہے حوض کا اور اعلیٰ درجہ ہے برتنوں کا، عرب میں اس سے بڑا برتن نہیں ہوتا تھا۔ ”قلہ“: کے معنی مٹکے کے ہیں یہاں مراد ہجر کے مٹکے ہیں کیونکہ عرب میں یہی مٹکے مشہور تھے، اس میں ڈھائی سو رطل پانی سمانے کی گنجائش ہوتی تھی، اس اعتبار سے دو قلوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل ہوئی، جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام (۲۲۷) بنتی ہے۔
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب پانی دو یا تین قلہ ہو تو اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7305، ومصباح الزجاجة: 215) (صحیح)» ( «أو ثلاثاً» کا لفظ صرف اس روایت میں ہے، اصحاب حماد نے اس کے بغیر روایت کی ہے کماتقدم)
قال الشيخ الألباني: صحيح
(امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کے شاگرد) ابو حسن بن سلمہ قطان نے یہی روایت اپنی عالی سند سے، یعنی بواسطہ ابوحاتم و ابوولید وغیرہ، حماد سے امام ابن ماجہ کے واسطے کے بغیر بیان کی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
|