كتاب الطهارة وسننها کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل 87. بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ بِغَيْرِ تَوْقِيتٍ باب: موزوں پر مسح کے لیے مدت کی حد نہ ہونے کا بیان۔
ابی بن عمارہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں دونوں قبلوں کی جانب نماز پڑھی تھی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا میں موزوں پر مسح کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، کہا: ایک دن تک؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، کہا: دو دن تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، کہا: تین دن؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، یہاں تک کہ سات تک پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جب تک تمہارا دل چاہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 60 (158)، (تحفة الأشراف: 6) (ضعیف)» (اس کی سند میں محمد بن یزید مجہول الحال ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مصر سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ نے اپنے موزے کب سے نہیں اتارے ہیں؟ انہوں نے کہا: جمعہ سے جمعہ تک، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے سنت کو پا لیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10610) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فتح مصر کی خوش خبری لے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے، چونکہ ایسے موقعہ پر رکنے ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ہوتا، اس لئے انہوں نے تین دن سے زیادہ تک مسح کر لیا، یہ حکم ایسی ہی اضطراری صورتوں کے لئے ہے، ورنہ اصل حکم وہی ہے جو گزرا، مقیم ایک دن اور ایک رات، اور مسافر تین دن اور تین رات تک مسح کر سکتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|