(حديث مرفوع) اخبرنا فروة بن ابي المغراء، حدثنا إبراهيم بن مختار، عن محمد بن إسحاق، عن محمد بن كعب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه: "صبوا علي سبع قرب من سبع آبار شتى حتى اخرج إلى الناس فاعهد إليهم"، قال: فاقعدناه في مخضب لحفصة فصببنا عليه الماء صبا او شننا عليه شنا، الشك من قبل محمد بن إسحاق، فوجد راحة، فخرج فصعد المنبر، فحمد الله واثنى عليه واستغفر للشهداء من اصحاب احد، ودعا لهم، ثم قال:"اما بعد، فإن الانصار عيبتي التي اويت إليها، فاكرموا كريمهم، وتجاوزوا عن مسيئهم إلا في حد، الا إن عبدا من عباد الله قد خير بين الدنيا وبين ما عند الله، فاختار ما عند الله"، فبكى ابو بكر، وظن انه يعني نفسه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"على رسلك يا ابا بكر، سدوا هذه الابواب الشوارع إلى المسجد إلا باب ابي بكر، فإني لا اعلم امرءا افضل عندي يدا في الصحبة من ابي بكر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ: "صُبُّوا عَلَيَّ سَبْعَ قِرَبٍ مِنْ سَبْعِ آبَارٍ شَتَّى حَتَّى أَخْرُجَ إِلَى النَّاسِ فَأَعْهَدَ إِلَيْهِمْ"، قَالَ: فَأَقْعَدْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ فَصَبَبْنَا عَلَيْهِ الْمَاءَ صَبًّا أَوْ شَنَنَّا عَلَيْهِ شَنًّا، الشَّكُّ مِنْ قِبَلِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، فَوَجَدَ رَاحَةً، فَخَرَجَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَاسْتَغْفَرَ لِلشُّهَدَاءِ مِنْ أَصْحَابِ أُحُدٍ، وَدَعَا لَهُمْ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الْأَنْصَارَ عَيْبَتِي الَّتِي أَوَيْتُ إِلَيْهَا، فَأَكْرِمُوا كَرِيمَهُمْ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ إِلَّا فِي حَدٍّ، أَلَا إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ قَدْ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ"، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَظَنَّ أَنَّهُ يَعْنِي نَفْسَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"عَلَى رِسْلِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، سُدُّوا هَذِهِ الْأَبْوَابَ الشَّوَارِعَ إِلَى الْمَسْجِدِ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ، فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ امْرَءًا أَفْضَلَ عِنْدِي يَدًا فِي الصُّحْبَةِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: ”میرے اوپر سات مختلف کنوؤں سے سات مشکیزے پانی ڈالو تاکہ باہر جا کر لوگوں سے عہد لوں“، راوی نے کہا: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے نہانے کے ٹب میں بٹھایا اور آپ کے اوپر پانی ڈالا۔ محمد بن اسحاق کو شک ہے کہ راوی نے «صب» کہا یا «شن» کہا (دونوں کے معانی ایک ہیں)، آپ کو کچھ راحت ملی تو آپ باہر تشریف لائے، منبر پر چڑھے، الله تعالی کی حمد و ثنا کی، شہدائے احد کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر فرمایا: ”أما بعد، انصار میرا وہ گھر ہیں جہاں میں نے پناہ لی، پس تم ان کے شریف کی عزت کرنا اور جو برے ہیں ان سے بھی جہاں تک ہو سکے درگزر کرنا، سنو لوگو! اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو دنیا اور جو اللہ تعالی کے پاس ہے اس کے درمیان اختیار دیا گیا تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے چن لیا“(یہ سن کر) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور یقین کر لیا کہ اس سے مراد خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو ابوبکر جلدی نہ کرو۔ لوگو! سڑک کی طرف سے مسجد کے سارے دروازے بند کر دینا سوائے باب ابی بکر کے، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ابوبکر سے زیادہ کسی آدمی نے میری صحبت میں اتنا میرے ساتھ احسان کیا ہو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 81) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیماری کی شدت برداشت کرنا ثابت ہوا۔ نیز یہ کہ پانی ڈالنے سے (گرمی کے) بخار میں کمی آتی ہے۔ رواۃِ حدیث کا حدیث بیان کرنے میں شدید احتیاط ثابت ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث سے انصار کی فضیلت معلوم ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کا اختیار دیا جانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب سے ملاقات کو ترجیح دینا ثابت ہوتا ہے۔ اس سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کی صداقت اور وصیت کہ آج تک باب ابی بکر موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع، احسان مندی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احسان کا اعتراف۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 82]» اس حدیث کی سند میں عنعنۃ ابن اسحاق ہے اور ایک راوی ابراہیم بن مختار متکلم فیہ ہے، باقی رواة ثقات ہیں، اس حدیث کو [ابويعلي 4478] و [ابن حبان 6600، 6601] نے بھی ذکر کیا ہے اور اس کی اصل [صحيح بخاري 3654 باب سدوا الأبواب إلا باب أبى بكر]، كتاب المناقب میں ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن