(حديث مرفوع) اخبرنا القاسم بن كثير، قال: سمعت عبد الرحمن بن شريح يحدث، عن ابي الاسود القرشي، عن ابي قرة مولى ابي جهل، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: ان هذه السورة لما انزلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جاء نصر الله والفتح {1} ورايت الناس يدخلون في دين الله افواجا {2} سورة النصر آية 1-2، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ليخرجن منه افواجا كما دخلوه افواجا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ شُرَيْحٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الْقُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ مَوْلَى أَبِي جَهْلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ هَذِهِ السُّورَةَ لَمَّا أُنْزِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ {1} وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا {2} سورة النصر آية 1-2، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيَخْرُجُنَّ مِنْهُ أَفْوَاجًا كَمَا دَخَلُوهُ أَفْوَاجًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ یہ سورة «﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ٭ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا ﴾»(النصر: 1،2/110) جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”جس طرح فوج در فوج لوگ اس (دین میں) داخل ہوئے ہیں اسی طرح یقیناً فوج در فوج نکل بھی جائیں گے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی جو مرورِ زمانہ میں ثابت ہوتی رہی ہے، کتنے فرقے قدریہ، معتزلہ، رافضہ، باطنیہ، منکرینِ حدیث، خوارج ایسے پیدا ہوتے رہے ہیں جو دین سے اسی طرح فوج در فوج نکل گئے، لہٰذا دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے، ان کو رواج دینے، اور ایسے برے عمل سے بچنا اور ہوشیار رہنا چاہے۔ « ﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾[النور: 63] » ترجمہ: ”سنو! جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے، یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔ “
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 91]» اس حدیث کی سند جید ہے اور اسے [امام حاكم 496/4] نے روایت کیا اور کہا کہ اس کی سند صحیح ہے لیکن بخاری ومسلم نے اس کو روایت نہیں کیا، ذہبی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق