(حديث مرفوع) اخبرنا خليفة بن خياط، حدثنا بكر بن سليمان، حدثنا ابن إسحاق، حدثني عبد الله بن عمر بن علي بن عدي، عن عبيد مولى الحكم بن ابي العاص، عن عبد الله بن عمرو، عن ابي مويهبة رضي الله عنه، مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إني قد امرت ان استغفر لاهل البقيع، فانطلق معي"فانطلقت معه في جوف الليل فلما وقف عليهم، قال:"السلام عليكم يا اهل المقابر، ليهنكم ما اصبحتم فيه مما اصبح فيه الناس، اقبلت الفتن كقطع الليل المظلم يتبع آخرها اولها: الآخرة اشر من الاولى"، ثم اقبل علي، فقال:"يا ابا مويهبة إني قد اوتيت بمفاتيح خزائن الدنيا والخلد فيها، ثم الجنة، فخيرت بين ذلك وبين لقاء ربي"، قلت: بابي انت وامي، خذ مفاتيح خزائن الدنيا والخلد فيها، ثم الجنة، قال:"لا والله يا ابا مويهبة لقد اخترت لقاء ربي"، ثم استغفر لاهل البقيع، ثم انصرف، فبدئ رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجعه الذي مات فيه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عُبَيْدٍ مَوْلَى الْحَكَمِ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي مُوَيْهِبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ، فَانْطَلِقْ مَعِي"فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِمْ، قَالَ:"السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ، لِيُهْنِكُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِيهِ مِمَّا أَصْبَحَ فِيهِ النَّاسُ، أَقْبَلَتْ الْفِتَنُ كَقِطْعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يَتْبَعُ آخِرُهَا أَوَّلَهَا: الْآخِرَةُ أَشَرُّ مِنْ الْأُولَى"، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ:"يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ إِنِّي قَدْ أُوتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا، ثُمَّ الْجَنَّةُ، فَخُيِّرْتُ بَيْنَ ذَلِكَ وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّي"، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، خُذْ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا، ثُمَّ الْجَنَّةَ، قَالَ:"لَا وَاللَّهِ يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ لَقَدْ اخْتَرْتُ لِقَاءَ رَبِّي"، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَبُدِئَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ.
سیدنا ابومویہبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ”مجھے حکم دیا گیا ہے بقیع میں مدفون لوگوں کے لئے استغفار کروں، لہٰذا تم میرے ساتھ چلو“، آدھی رات میں میں آپ کے ساتھ نکلا، اور جب آپ ان کی قبروں کے پاس کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”اے قبر والو! تمہارے اوپر سلامتی ہو، تم جس حال میں ہو وہ تمہیں مبارک ہو اس کے مقابلے میں جس میں لوگ اب مبتلا ہو گئے ہیں (کاش تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہیں الله تعالی نے کس چیز سے نجات دے دی ہے)۔ فتنے اندھیری رات کے گوشوں کی طرح یکے بعد دیگرے ابل پڑے ہیں، آخری فتنہ پہلے سے زیادہ برا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے، فرمایا: ”ابومویہبہ! مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں اور دنیا میں ہمیشہ رہنا یا جنت دی گئی اور مجھے دنیا یا اپنے رب سے ملاقات کا اختیار دیا گیا ہے“، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان دنیا کے خزانے اور اس میں ہمیشگی کو لے لیجئے پھر جنت اختیار فرما لیجئے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اللہ کی قسم اے ابومویہبہ! نہیں، میں نے اپنے رب کی ملا قات کو اختیار کر لیا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعا کی اور لوٹ آئے، تب ہی سے وہ درد شروع ہو گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 78) اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں: تصدیقِ رسالت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احکامات الله تعالیٰ کی طرف سے ملتے تھے۔ حکمِ الٰہی کی پیروی میں آدھی رات میں گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ مقبرے میں داخلے کا طریقہ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ» کہنا۔ دن اور زمانے سے متعلق حقیقتِ حال ذکر کرنا برا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے خزانے اور خلد عطا کیا گیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رب ذوالجلال سے ملاقات کو ترجیح دی۔ مُردوں کے لئے دعاءِ استغفار کرنے کی مشروعیت وغیرہ اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 79]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 489/3]، [المعجم الكبير 871]، [المستدرك 56/2]، [الدلائل للبيهقي 163/6 بهذا الإسناد]